منظور پشتین و پی ٹی ایم کے دیگر رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر ختم کرنے کا حکم

279

پشاور ہائیکورٹ نے منظور پشتین، علی وزیر اور گلالئی اسماعیل سمیت پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے دیگر رہنماؤں کے خلاف ضلع صوابی میں درج ایف آئی آر ختم کرنے کا حکم دے دیا۔

پی ٹی ایم کے پانچ رہنماؤں منظور پشتین، محسن داوڑ، گلالئی اسماعیل، علی وزیر اور ڈاکٹر مشتاق کے خلاف اگست 2018 میں صوابی میں جلسہ کرنے اور ’ریاست کے خلاف تقاریر کرکے لوگوں کو اکسانے‘ کے الزام میں ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

ایف آئی آر کے بعد علی وزیر، محسن داوڑ اور دیگر کو اشتہاری ملزمان بھی قرار دیا گیا تھا اور صوابی پولیس کی جانب سے وزیرستان انتطامیہ کو ان رہنماؤں کو گرفتار کرنے کے احکامات بھی جاری کیے گئے تھے۔

اسی ایف آئی آر کی وجہ سے نومبر 2018 میں محسن داوڑ اور منظور پشتین کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر دبئی جانے سے بھی روک دیا گیا تھا۔

پی ٹی ایم کے وکیل نے پشاور ہائی کورٹ میں اس ایف آئی آر کے خلاف درخواست دائر کر رکھی تھی۔

جمعرات کو اس درخواست کی سماعت چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی، جس کے دوران پی ٹی ایم کے وکیل نے کہا کہ مذکورہ جلسے میں کسی نے غیر آئینی بات نہیں کی۔

انہوں نے عدالت سے اس ایف آئی آر کو ختم کرنے کی استدعا کی۔

پی ٹی ایم کے وکیل محمد ایاز خان کے مطابق  عدالت میں اپنے دلائل دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ جلسہ کرنا ہر کسی کا آئینی اور قانونی حق ہے۔

محمد ایاز خان نے عدالت میں کہا کہ ’ان کے موکلین پر ایف آئی آر کو ختم کیا جائے کیونکہ پولیس کی جانب سے جو شہادتیں عدالت میں پیش کی گئیں وہ ناقص ہیں۔‘

جس کے بعد پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی ایم کے پانچ رہنماؤں کے خلاف درج ایف آئی آر ختم کرنے کے احکامات جاری کردیئے۔

محمد ایاز خان کے مطابق عدالت نے ابھی مختصر حکمنامے میں ایف آئی آر کو ختم کرنے کا حکم دیا ہے اور تفصیلی فیصلہ ابھی آنا باقی ہے جس میں ججوں کے ریمارکس شامل ہوں گے۔

پی ٹی ایم کے لیڈروں کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں جلسوں کے دوران مبینہ طور پر لوگوں کو ریاست کے خلاف اکسانے کے الزام میں مقدمات درج ہیں۔ ان میں سے ایک 6 مئی کو سابق قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں درج ہوا جس میں حکام کی جانب سے پی ٹی ایم کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی علی وزیر اور ان کے 12 ساتھیوں پر عوام کو بغاوت پر اکسانے کا الزام ہے۔

ضلعی پولیس افسر کفایت اللہ خان کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ علی وزیر اور ساتھیوں نے اس سال یکم مئی کو شمالی وزیرستان کے مقام شیواہ پر جلسہ عام میں ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف نعرے لگائے اور اس طرح ملکی سلامتی کے لیے خطرات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔