مستونگ : گرلز سکولوں کی طالبات الرجی سے کیوں متاثر ہو رہی ہیں- رپورٹ

174

بلوچستان کے ضلع مستونگ میں بظاہر الرجی سے پریشان گرلز سکولوں کی طالبات نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ صرف مستونگ شہر اور اس کے نواحی علاقوں کے گرلز سکولوں کی طالبات الرجی سے کیوں متاثر ہو رہی ہیں۔

یہ سوال اٹھا جب ایک طالبہ کو سکول میں الرجی اور سانس کی تکلیف کے بعد علاج کے لیے سیول ہسپتال کوئٹہ منتقل کیا گیا۔ گرلز ہائی سکول شمس آباد مستونگ میں یہ تیسرا سکول تھا جس میں 30 کے لگ بھگ طالبات الرجی سے متاثر ہوئیں جن میں سے بعض کو ابتدائی طبی امداد کے بعد مزید علاج کے لیے کوئٹہ منتقل کیا گیا۔

ایک اور طالبہ نے بتایا کہ سکول کی اسمبلی کے بعد جب وہ کلاس رومز میں گئیں تو انھوں نے بے چینی محسوس کی۔ اسی طرح سول ہسپتال آنے والی تمام طالبات کا یہ کہنا تھا کہ جب وہ کلاس رومز میں گئیں تو انھیں پہلے ایک کڑوی سی بو محسوس ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ان کے جسم پر خارش شروع ہوئی اور اس کے ساتھ ان کا دم گھٹنے لگا۔

انھوں نے بتایا کہ ہسپتال میں ان کا علاج تو کیا گیا لیکن اب ان کے سر میں چکر محسوس ہو رہے ہیں۔ ان طالبات نے سوال یہ اٹھایا کہ جب اس علاقے کے اور سکولوں میں ایسے واقعات پیش نہیں آ رہے تو مستونگ کے گرلز سکولوں میں کیوں؟

تحقیق کیا بتاتی ہے؟

شمس آباد کے واقعے سے قبل دو سکولوں میں پیش آنے والے مزید واقعات کے بعد طلبا اور ان کے والدین کے احتجاج پر محکمہ صحت کی جانب سے ایک تحقیقاتی ٹیم بنائی گئی۔

ماہرین کی ٹیم نے ضلع مستونگ میں متاثرہ گرلز سکولوں کا دورہ کیا اور اعلامیہ کے مطابق ہرسطح پر وائرس کے متعلق تحقیقات کی گئی۔

تحقیقات کے بعد ماہرین کا کہنا تھا کہ طالبات ڈرماسسٹس نامی وائرس کی وجہ سے متاثر ہوئی ہیں۔

محکمہ صحت کی جانب سے تحقیقات کے حوالے سے جو اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں اس کے لیے پر اسرار وائرس کا لفظ استعمال کیا گیا تھا۔

اعلامیہ کے مطابق یہ ایک ایساوائرس ہے جوکہ منٹوں میں ایک سے دوسرے شخص کو متاثرکرتا ہے۔

اس ٹیم کی ایک رکن نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ اس سلسلے میں نمونے اسلام آباد بھی بھیج دیئے گئے ہیں جہاں سے رپورٹ آنا باقی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ بہت ساری طالبات ان واقعات کے بعد نفسیاتی طور پر بھی متاثر ہوئی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ بعض متاثرہ طالبات کی کونسلنگ کے بعد وہ بالکل ٹھیک ہوئیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس کے بہت سارے اور پہلو ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے تجویز پیش کی کہ اگر ایک اور اسکول میں ایسا واقعہ پیش آیا ہے جس کے باعث اگر خوف و ہراس برقرار ہے تو حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک نئی ٹیم تشکیل دے جو وہاں جاکے تمام پہلووں کا جائزہ لیکر اس کو نئے سرے evaluateکرے تاکہ اس مسئلے کا پایہ دار حل نکلے ۔

اس سے قبل مستونگ میں دو گرلز اسکولوں ، گرلز ہائی اسکول کلی محمد شئی اورگرلز اسکول کلی اشکینہ میں بھی طالبات اسی طرح متائثر ہوئی تھیں ۔

میڈیا میں رپورٹ ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق اب تک ان اسکولوں میں دو سو سے زائد طالبات الرجی متائثر ہوئی ہیں ۔

تیسرے اسکول میں پیش آنے والے واقعہ سے قبل دو اسکولوں کی سابق طالبات نے بطور احتجاج کوئٹہ کراچی ہائی وے کو بند بھی کیا تھا ۔

ان کا یہ موقف تھا کہ ان کا علاج صحیح معنوں میں نہیں ہورہا تھا۔

جہاں ان واقعات سے گرلز اسکولوں کی طالبات پریشان ہیں وہاں ان کے والدین بھی پریشانی سے دوچار ہیں۔

طالبات کے ساتھ کوئٹہ آنے والے والدین میں سے محمد جان نے بچیوں کے ساتھ ان واقعات کو ظلم قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکام کو دیکھنا چائیے کہ یہ کیوں پیش آرہے ہیں۔