“مزاحمت” قومی شناخت و آزادی کا رہنماء اصول
تحریر: نادر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کمزور کوئی نہیں ہوتا، نہ کوئی کسی پر قابض ہوسکتا ہے، بس دفاع کرنے کی جرئت اور مزاحمت سے دفاعی حصار بنانے کی ترکیب آنی چاہیئے۔ مزاحمت قدرت سے جڑی ایک ناقبل شکست عمل ہے، جس نے ہر جاندار اور ذی شعور چرند و پرند کے حفاظت کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ جہاں پر مزاحمت سے موسمی اثرات سے لیکر بھوک و افلاس تک حالات سے لڑ لڑ کر موجودہ دنیا ہمیں اس صورت میں نظر آتی ہے، اس کائنات سے مزاحمت جس دن ختم ہوگیا، اس دن نہ یہ دنیا قائم رہ پائے گی، نہ اس پر بسنے والی مخلوق زندہ رہیگی۔ سورج و چاند کی روشنی سے لیکر زمین کی کشش تک سب مزاحمتی عمل کی دین سے زندگی کو پرسکون اور پرامن بناتی ہے۔ انکار ہی شاید زندگی کا دوسرا نام ہے، خود کی زندگی کو خود جینا اپنی مرضی سے، اپنے لیئے جنگ اور امن میں سے کسی ایک کا چناو کرنا، اپنے ابتداء اور انتہاء پر خود عبور رکھنا، غلامی سے بغاوت و انکار کر کے آزادی کا شمع روشن رکھنا، یہی مزاحمتی عمل کی شروعات ہے، یہاں سے آگے آزادی کا جنون و آزادی ہے۔
چیونٹی کا ہاتھی کو زیر کرنے کے محاورہ کو لیکر غور کریں تو چیونٹی اتنی سی جسامت میں کئی ہزار گنا وزن میں کم مخلوق کیسے ہاتھی کو زیر کر پاتی ہے؟ یہ مزاحمت ہے جو بعض کمزوریوں کے باوجود جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے، اس آخری اوزار کو جو خود کو اپنے مقصد، دفاع و آجوئی کیلئے فنا کرنا ہے، اس انتہاء کو حاصل کرنے کا ہنر سکھاتی ہے۔ مکڑی کا جالا نرم و نازک ہونے کے باوجود اسکی حفاظت کرتی ہے، مکڑی کو پرورش و نسل پروری کا موقع فراہم کرتی ہے۔ مزاحمت کے یہ آثار نظر میں نہ آنیوالی زندگیوں سے شروع ہوکر دیو قامت اجسام پر مشتمل ہیں، جو کسی نہ کسی شکل میں اپنا دفاع کرتے ہیں، اپنے آس پاس و دور موجود دشمن سے، جب ان سے مزاحمت ختم ہو جاتی ہے تو مر جاتے ہیں۔ یہ سب ایک ہی مقصد پر قائم ہے، آزادی و آجوئی کو قاہم رکھنا۔ بارہ سینگاہ کے سینگ اور پرندوں کے نازک پنک ہمیشہ اسکی قوت میں اضافہ کرتی ہیں۔ لیکن اگر انکے استعمال کے ہنر میں کمی و ناآشنائی ہو تو دفاع ناممکن ہوتی ہے، اس لیئے اپنے وسائل کی کمی پر رونے کے بجائے وسائل کا صحیع استعمال ضروری ہے۔ کمزور سے کمزور اقوام و تحریکوں نے کامیابی اس لیئے حاصل کی کیوںکہ انہوں نے دفاعی نظام کو قائم کرنے کا ہنر سیکھ لیا تھا، جدت کی تلاش و استعمال اور جستجو علم و عمل میں اضافہ کرتی ہے، کمزوریوں کو طاقت میں بدل دیتی ہے۔
بلوچ قوم صدیوں سے جاری اپنے دفاع کو قائم رکھنے کی کوششوں سے دشمن و حملہ آور قوتوں سے برسرپیکار ہے، یہ عمل جاری ہے، تا ابد جاری رہتی ہے، جب کوئی قوم اپنے دفاع سے غافل ہوتا ہے، مزاحمت سے نالاں ہوتا ہے تو وہ مٹ جاتا ہے، زندہ ہونے کے باوجود اپنے آزادی و شناخت کھو دیتی ہے۔ ریڈ انڈینز کی مثال بھی ان بدقسمت اقوام کی کہانیوں میں سے ایک ہے جہنوں نے قدرت کے اس بنیادی قانون کو جاری رکھنے سے انحراف کیا، وہ مٹ گئے، دفاعی عمل ہزاروں سالوں سے ہر قوم کی تاریخ کا حصہ ہوتی ہے، اس میں جلد بازی میں نتیجہ اخذ کرنا، تحریکوں کی کامیابی اور ناکامی کا اعلان کرنا قطعا” غلط تجزیہ ہے، بلکہ اس عمل کو ناپنے کیلئے صدیاں بھی کم ہوتی ہیں، مزاحمت سے جڑی اقوام اور تحریکیں ناقابل شکست و ناقابل تسخیر ہوتی ہیں۔ بلوچ تاریخ مزاحمت سے بھری پڑی ہے، کسی قابض و حملہ آور کا یہاں پر استقبال نہیں کیا گیا، نہ ہی انکے آنے پر شادیانے بجائے گئے ہیں۔ یہاں اس سرزمین پر قدرت نے خود بلند و بالا پہاڑ، چٹیل میدان بنا کر ایک ناقابل تسخیر دفاعی نظام سے بلوچ قوم کو نوازا ہے، جب جب دشمن طاقت کے گھمنڈ سے حملہ آور ہوتا ہے، بولان اسکے غرور کو خاک میں ملا دیتی ہے۔
موجودہ بلوچ قومی تحریک ستر سالوں سے جاری پاکستانی قبضے کے خلاف جاری بلوچ مزاحمتی عمل کے سب سے منظم و طاقتور دورانیہ میں سے ایک ہے، پالیسی سازوں کی کامیاب پالیسیاں ان حقیقتوں کو قوم اور اقوام عالم کے سامنے آشکار کر رہی ہے کہ مزاحمتی سوچ و عمل ہی محکوم و مظلوم اقوام کو اپنی شناخت و آجوئی کو قاہم رکھنے کیلیے طاقت و کامیابی فراہم کرتی ہے۔
باشور بلوچ سیاسی کارکنوں، جہد کاروں کی جانب سے قدرتی دفاعی نظام کے ہر پہلو کو کامیابی سے قومی امنگوں کی تکمیل کیلئے استعمال کرنا، ساحل سمندر سے لیکر کوہلو و کاہان تک ازسر نو صف بندیاں کرنا، قومی و سیاسی شعور میں اضافے کی پیش بینی کر رہی ہیں۔ بلوچ مزاحمتی تاریخ کی کتابوں کے صفحوں میں روشن ابواب کا اضافہ ہورہا ہے، مرد و عورت ایک ہی صف میں شامل ہوکر ریاستی ظلم، و جبر کا جواب دے کر قومی دفاع کی دیواروں کو مظبوط بنیاد فراہم کر رہی ہیں۔ بلوچ نوجوانوں کی کامیاب حکمت عملیوں نے جوش اور ولولے میں اضافہ کرکے نوجوانوں کو غلامی کی سیاہ و بے عزتی کی راہوں کو چھوڑ کر قومی آزادی کی جاری کامیاب تحریک میں ہمسفر و ہمرکاب ہونے کا حوصلہ بخشا ہے، جو یقینا”. بلوچ شہداء کے ارمانوں اور منزل کو پانے میں مددگار ہونگی۔
کامیابی و ناکامی قدرت کے ترازو کے دو پلڑے ہیں، ان سے سامنا ہر فرد و ذی شعور سے شروع ہوکر اقوام کی تاریخوں میں بھی ملتی ہے، کامیابی سے سفر کو جاری رکھنے کیلئے ناکامیوں سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے، ضروری اور فطری عمل یہ ہے کہ ہم انکا تجزیہ اور سائنسی بنیاد پر عمل کے ذریعے پرکھنے کا ہنر استعمال کریں، کمزوریوں کو کم کرنے کیلئے کامیابی حاصل کرنے کے طریقوں پر غور کریں، تھکاوٹ و لاچاری پر دسترس حاصل کریں۔ اقوام کی تحریکوں کے امین اور اجوئی کے سپاہی نوجوان ہوتے ہیں، انکے کندھوں پر دفاع و ننگ و ناموس کی حفاظت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، ہم آواز ہونے کیلئے ضروری ہے کہ عمل کو تحریر و تقریر کے نئے زاویوں سے روشناس کرنے کیلئے ایلمی، سنگتی کی نئی مثالیں قائم کی جائیں۔ مزاحمت کو قومی شناخت و آجوئی کو قائم رکھنے کا سب سے اہم اور رہنماء اصول بنائیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔