لاپتہ جیئندبلوچ اور مقروض اخترمینگل ۔ میر بلوچستانی

188

لاپتہ جیئندبلوچ اور مقروض اخترمینگل

تحریر: میر بلوچستانی

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے علاقے ہُدّا مینگل چوک سے 29 نومبر 2018 کو گرفتاری بعد لاپتہ جیئند بلوچ جوکہ ملتان بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی میں ماسٹرز کے طالب علم ہیں اور اسٹوڈنٹ ایکٹیوسٹ بھی ہیں، ان کیلئے 24 مئی 2019 بروز جمعہ رات 10 بجے سے 12 بجے تک انکے ہم عصر ساتھیوں کی جانب سے ٹوئیٹر پر ٹرینڈ چلایا گیا اور ان کی چھ ماہ سے جبری گمشدگی کی مذمت بھی کی گئی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل صاحب سے پرزور مطالبہ کیا گیا کہ وہ قومی اسمبلی میں جیئندبلوچ کی بازیابی کا مطالبہ پیش کریں۔ اس کیمپین میں بڑی تعداد میں طلباء نے شرکت کی اور دو گھنٹے کے اندر جیئند بلوچ کا ٹرینڈ ٹوئیٹر کے ٹاپ ٹرینڈز میں شمار رہا۔ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس نے جناب اختر مینگل صاحب کو جیئند بلوچ کا مقروض ٹہراتے ہوئے دلیل پیش کی کہ جب جناب مینگل صاحب نے لاپتہ افراد کے مسئلے کو اپنا سیاسی موقف بنا کر اپنا الیکشن کیمپین شروع کیا تو جیئند بلوچ نے اپنے تنظیمی ڈسپلن کی پرواہ کیئے بغیر ہر قسم کا خطرہ مول لیکر مینگل صاحب کی جماعت کو اسمبلیوں تک پہنچانے میں کردار ادا کیا، اس امید کے ساتھ کہ مینگل صاحب اس دیرینہ مسئلے کو حل کرانے میں کامیاب ہونگے۔ جیئند بلوچ مینگل صاحب کا پوسٹر اٹھاکر ڈور ٹو ڈور کیمپین بھی کرتے رہے اور اپنے محلے میں جلسے کا اہتمام کرکے پارٹی قیادت کو عوام کے روبرو بھی لے آئے تھے۔ یہ انکی پرخلوص کاوش اور امید تھی کہ آج مینگل صاحب اور ان کی جماعت اسمبلیوں میں مضبوط نمائندگی رکھتے ہیں۔

سوشل میڈیا کیمپین میں شامل تمام نوجوان جناب اختر مینگل صاحب کو قوم کا رہبر و امید پکارتے ہوئے ان سے گذارش کرتے رہے کہ وہ جس مینڈیٹ کو لیکر اسمبلی تک پہنچے ہیں، اس میں اب کسی قسم کی غفلت نہ برتیں بلکہ ان امیدوں پر عملی اقدام کریں۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں کی مثال دیتے ہوئے طلباء نے کہا کہ جس طرح وہ ہر مسئلے پر اسمبلی کے فلور سے لیکر اپنے عوام کے ساتھ گلی کوچوں و کھیت و کھلیانوں تک خطرے و سیکیورٹی کی پرواہ کیئے بغیر ہم قدم رہتے ہیں، اسی طرح آپ بھی اپنے کمفرٹ زون سے باہر آکر عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہو جائیں۔

کیمپین میں ایک کثیر تعداد ان طلباء کی تھی، جو بلوچستان سے باہر پاکستان کے بڑے جامعات میں زیر تعلیم ہیں۔ انہوں نے بلوچستان سے باہر کے طلباء کے مسائل و خطرات کی جانب مینگل صاحب کو متوجہ کرتے ہوئے گذارش کی کہ وہ اب فقط سیاسی سکورنگ سے ہٹ کر عوام کے رنج و غم کی عملی ترجمانی کریں اور باہر زیرتعلیم طلباء کے مسائل کو اربابِ اقتدار کے نوٹس میں لائیں۔ طلباء کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اپنے سیکیورٹی کو لیکر شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے انکی علمی سرگرمیوں میں خلل پیدا ہو رہی ہے۔ لہٰذا مینگل صاحب سے گذارش کی گئی کہ وہ جیئندبلوچ کا مسئلہ اسمبلی میں اٹھا کر جوان نسل کو حوصلے کے ساتھ امید و سکون بخشیں۔

اسی طرح مینگل صاحب کو جیئند بلوچ کے گھر والوں کی حال پرسی کیلئے گوش گذار بھی کیا گیا اور یہ عرضداشت بھی پیش کی گئی کہ سنگت جیئند بلوچ ایک عام سٹوڈنٹ نہیں ہیں بلکہ وہ ایک طلبہ نمائندہ ہیں اور ان کے ساتھ سینکڑوں نوجوانوں کی ہمدردیاں وابسطہ ہیں، اس لیئے ان کے لیئے آواز اٹھانے کا مطلب ہزاروں نوجوانوں کو دلی تسلی و حوصلہ عطا کرنے کے مترادف ہے جوکہ کسی بھی قومی رہبر کی اوّلین ذمہ داریوں میں شمار ہوتا ہے۔

ٹویٹر ٹرینڈ تیز ترین اُبھار کے ساتھ بوسٹ کرتا گیا جوکہ دو گھنٹے کے اندر دو ہزار ٹویٹس سے تجاوز کرگیا اور مقررہ مدت ختم ہونے کے بعد بھی رات بھر چلتا رہا، جس میں جوق در جوق سوشل میڈیا ایکٹوسٹ شامل ہوتے رہے۔ تمام کے تمام ٹویٹس میں مینگل صاحب کو ٹیگ کیا جاتا رہا تاکہ انکو اس بحث میں بھی شامل کیا جا سکے اور ان کو مطالبات بھی پیش ہوں تاکہ طلباء کی درست رہنمائی ارباب اختیار کے آگے ہو سکے۔

ہزاروں ٹویٹس کے بعد اخترمینگل صاحب نے اپنی قومی اسمبلی کی پہلی تقریر کی ویڈیو کلپ پوسٹ کی جس میں وہ پانچ ہزار لاپتہ افراد کی فہرست اسمبلی میں پیش کر رہے ہیں اور انہوں نے ٹویٹ لکھا کہ “۵۱۲۸ گمشدہ لوگوں کی فہرست جو اسمبلی میں پیش کی، وہ سب کسی ماں کے جیئند ہیں، میری زمہ داری ہر اس ماں کی دکھ بھری فریاد ایوان میں بیٹھے حکمرانوں تک پہنچانی ہے، قطع نظر کسی نے مجھے ووٹ دیا کہ نہیں”۔ بلآخر مینگل صاحب کا رسپانس آگیا، جس پر ان کے شیدائی واہ واہ کرتے رہے اور سنگت جیئند بلوچ کے ساتھی ان کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ اپنی گذارشات دہراتے رہے کہ مینگل صاحب درست ہیکہ آپ نے ہمیشہ لاپتہ افراد کے مسئلے کو اٹھایا ہے اسی لیئے کسی اور کے بجائے آپ ہی سے دوبارہ گزارش کر رہے ہیں کیونکہ یہ مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ مزید گھمبیر ہو گیا ہے۔

مینگل صاحب کی خدمت میں عرض ہوکہ جب انہوں نے ۵۱۲۸ گمشدہ افراد کا لسٹ اسمبلی میں پیش کیا، تب یہ جیئندبلوچ لاپتہ نہ تھے۔ مینگل صاحب، یہ لسٹ آپ نے غالباً اگست 2018 میں پیش کی تھی اور سنگت جیئند بلوچ 31 نومبر 2018 کو گمشدہ کیئے گئے ہیں۔ کیا جیئند بلوچ کے ساتھیوں کا یہ مطالبہ غلط ہے کہ جس طرح آپ نے پانچ ہزار سے زائد ماؤں کے جیئند کے لیئے آواز بلند کی تھی، اسی طرح اس جیئند اور ان کے بعد گمشدہ کیئے گئے سینکڑوں جیئندوں کی فہرست دوبارہ اسمبلی میں پیش کریں؟ شاید آپ کی طبیعت کو یہ بات ناگوار گزری کہ آپ کو ایک ہی وقت میں سینکڑوں نوجوانوں نے ہزاروں پیغامات بھیجے اور آپ سے رہبری کرنے کی التجا کی مگر یہ سادہ لوح عوام کیا کریں۔ انہیں سنتا کون ہے؟ نوجوان جب خود سڑکوں پر نکل کر اظہار رائے کا اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہیں یا لکھتے ہیں تو وہ جیئند بلوچ کی طرح غائب کر دیئے جاتے ہیں۔ ایسے میں یہ راستہ بچتا ہے کہ آپ جیسے محترم نمائندگان کو فریاد کی جائے کہ آپ آئینی اسمبلی میں ان کی فریاد پہنچا دیں۔

مینگل صاحب، آپکا یہ جواب کہ آپ نے ایک بار فہرست دیکر اپنا فرض نبھا لیا ہے، یہ عوام کو کبھی قبول نہ ہوگا۔ آپ نے عوام کے دلوں میں خود امید جگایا، آپ نے وعدہ کیا کہ آپ کوئی مراعات قبول نہیں کرینگے بلکہ بارہا کرسی و منصب کو ٹھکرا کر عوام کی درد و دُکھ کی ترجمانی کرینگے۔ آپ کے اسی قول کے بھروسے نوجوان نسل نے آپکو وہ اعزاز بخشا جو آج کے وقت میں کسی بھی اور سیاسی رہنما کی نہیں ہے۔ آپ کے لیئے ہزاروں نوجوانوں نے اپنی جان جوکھم میں ڈالا، ہزارہا خطرات مول لیئے مگر آپکی عزت و احترام پر آنچ نہیں آنے دیا کیونکہ آپکو عوام نے مسیحا کے رتبے پر ایک آخری امید کے طور پر بٹھایا ہے۔

جیئند بلوچ کی لازوال قربانیوں کا حساب آپ سے اس لئے مانگ رہے ہیں کہ ان کے پسماندگان پانچ سال میں ایک بار امید کی لولی پاپ چوسنے کی سکت قطعی طور نہیں رکھتے۔ وہ روز روز کربناک موت مر رہے ہیں اسلیئے آپ کبھی کبھی تو انکا دل رکھنے کیلئے ہی صحیح تسلی کا پیغام تو بھیجیں۔ اپنی رہبری کا ثبوت دیں۔

عرض وہی ہیکہ آپ کے ایک احسان جتانے والی ٹویٹ سے آپکو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔ آپ سے مطالبہ ہیکہ ووٹ کے بدلے نہیں امید کے بدلے، ارمانوں کے بدلے، رنج و غم کے بدلے، آہ و سسکیوں کی خاطر جس ایوان میں عوام نے آپکو بٹھایا ہے اس میں ایک بار جیئند بلوچ کی تصویر اٹھا لیں اور ارباب اختیار سے انکی زندگی بچانے کا مطالبہ کریں۔ اس میں انا کو بیچ میں مت آنے دیں۔ بڑی امید لیکر آپ کے آگے جھولی پھیلائے فریاد کی جا رہی ہے۔ جیئند بلوچ کی زندگی بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ان کا حق ادا ہو جائے گا۔ آپ کا بوجھ اتر جائے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔