لاپتہ افراد
تحریر : میر افضل خان طوری
دی بلوچستان پوسٹ
خدا نہ کرے کہ کوئی آپ کے کسی عزیز کو لاپتہ کردے۔ یہ درد صرف ان بچوں اور ماؤں کے مقدر میں لکھا گیا ہے جن کے گھروں سے زندہ سلامت افراد لاپتہ ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں لوگوں کو اپنے گھروں سے لاپتہ کرنا اب روز کا معمول بن چکا ہے۔ آج تک ہزاروں پشتون، بلوچ اور اہل تشیع مسلمانوں کو لاپتہ کیا جا چکا ہے۔
جن کے گھروں سے لوگ لاپتہ ہو گئے ہیں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ہمارے بندوں نے کوئی جرم کیا ہو تو ان کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔ لیکن خدارا پورے گھرانے کو زندہ در گور مت کیجیئے۔ ان کے گھر والے مسلسل انکو ہر جگہ ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ ایسا سلوک کو کوئی جانی دشمن بھی کسی کے ساتھ نہیں کرتا۔ ان کے تمام اہل خانہ سخت ترین کرب اور اذیت سے گذر رہے ہیں۔
قوم اتنی بڑی زیادتی پر ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے۔ بات اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے اور مائیں کفن پہن کر سڑکوں پر آچکے ہیں۔ یہ ہم سب کیلئے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ ہماری عدالتیں اور قانون کتنے بے بس ہو چکے ہیں۔ عوام پر درندے چھوڑ دیئے گئے ہیں۔ وحشی درندے کو کسی کے دکھ اور درد سے کوئی غرض نہیں ہوتا۔ ان کو اپنے شکار سے غرض ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم بھی کسی خوفناک جنگل میں رہ رہے ہوں، جہاں کوئی بھی وحشی درندہ ہمیں کسی بھی وقت اٹھا کر لے جا سکتا ہے۔ ایک ایسا گھنے جنگل میں جہاں پر ہماری فریاد سننے والا کوئی بھی نہیں۔ ایک ایسا گھنا جنگل جہاں پر کوئی بھی مدد کرنے والا موجود نہ ہو۔ ایک ایسا گھنا جنگل جہاں پر نہ ہماری جان محفوظ ہو اور نہ اہل و عیال۔
درحقیقت آجکل پشتونوں، بلوچوں اور اہل تشیع مسلمانوں کو بھی ایسی ہی خوفناک صورحال کا سامنا ہے۔ جب تک ہم سب مل کر اس جنگل میں انسانوں کی تلاش نہیں کرتے اور سارے انسان مل کر ان وحشی درندوں کا خاتمہ نہیں کرتے۔ یہ وحشی درندے اسی طرح ہم سب کو ایک ایک کرکے لاپتہ کرتے رہیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔