قومی تحریک آزادی اور مطلق العنان رویے
تحریر: شہیک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اکثر دوست اس بات کے قائل نہیں کہ ماضی کی باتوں پر بحث کی جائے لیکن میرے نزدیک ماضی ہی حال کا آئینہ دار ہے۔ ماضی میں جو کچھ ہوا اسی کی بدولت آج ہم یہاں تک پہنچے ہیں اور ماضی کو دہرانے سے خود کو روکنے کے لیئے اس کا شعور حاصل کرنا لازم ہے۔ ماضی میں جن غیر سیاسی رویوں نے تحریک کو شدید نفسیاتی بحران کا شکار بنایا ان کو سمجھنا لازم ہے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے منفی رجحانات کے لیئے کوئی بھی جگہ نہ ہو اور تحریک منظم ہوکر ان جہتوں پر کام کرے جہاں سے محاذ کمزور ہے۔ تحریک کی “ہمہ جہتی” بابت ماضی کے ان رویوں کو سمجھنا ہوگا، جنہوں نے تحریک میں جدت کی راہوں کو معدوم کرنے سمیت تحریک کو اپنی ذات اور اپنے گروہ تک محدود کرنے کے لیے تحریک کو ڈی ٹریک کیا اور قبائلی مزاج سے فیصلے کرتے ہوئے اندرونی خانہ جنگی کی صورتحال کو جنم دیا گیا۔ مسائل اتنے شدید قسم کے نہیں تھے اگر آپ بی ایل اے و یو بی اے کے مسئلے کو دیکھ لیں جہاں فرد واحد کی مطلق العنانی نے پہلے مرحلے میں تنظیم کی تقسیم اور دوسرے مرحلے میں مڈی کے نام پر جنگ تک معاملے کو پہنچایا لیکن یہی اختیار جب فرد واحد کے ہاتھ سے نکل کر انقلابی کردار کے حامل جہدکاروں کے ہاتھ آیا تو انہوں نے بغیر وقت ضائع کیئے اس مسئلے کو حل کرادیا اور تحریک میں اتحاد کی راہ کو ہموار کیا۔
مسئلہ پھر آخر تھا کہاں؟ مسئلہ فرد واحد کی مطلق العنانیت تھی، وہ اپنے اختیار کا غلط استعمال کرنے سمیت کسی کو بھی اختیار دینے کے قائل نہیں تھا۔ اگر وہ اپنے اختیار کا استعمال بھی مثبت رخ میں کرتے تب بھی مسئلہ نہیں تھا لیکن جس قبائلی مزاج میں فیصلے کیئے گئے ان سے شدید نقصانات ہورہے تھے۔ اب اس مطلق العنانیت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نتائج کی صورت میں باشعور جہدکاروں کے لیے دو راستے تھے، ایک تو یہ کہ وہ فرد واحد کی غلط پالیسیوں پر خاموش ہوکر تماشہ دیکھتے رہتے اور یوں تحریک اپنے تاریخی دھارے سے ہٹ کر ایک مایوسی و ناکامی کا سامان بن جاتا، دوسری صورت میں اختیار کو فرد واحد سے چھین کر قومی اداروں کے حوالے کرنا جو تمام مسائل پر قابو پا کر تحریک کو نئے فیز میں داخل کرتے اور بلوچ جہدکاروں نے یہی فیصلہ لیا۔ جب فیصلہ اداروں کے ہاتھوں میں آیا جہاں مطلق العنانیت کے بجائے انقلابی سوچ و کردار نے رہنمائی کی تو مسائل خود بخود حل ہوتے گئے۔ یاد رکھیئے مطلق العنانیت نہ صرف مسئلوں کو جنم دیتی ہے بلکہ ان کے حل کی راہ میں رکاوٹ بھی بنتی ہے۔ وہی بی ایل اے جب فرد واحد کے ماتحت تھا کوئی بھی مثبت پیش رفت حاصل کرنے میں کیوں ناکامی کا شکار ہورہا تھا؟ وہی تنظیم جب ایک فرد کے خواہشات و ضد سے نکل کر قومی ٹریک پر آیا تو قومی تحریک کے امنگوں کی ترجمانی کرنے لگا۔
آج جو بھی مطلق العنانیت کا شکار ہیں، ان کی isolation خود اس بات کی وضاحت کررہا ہے کہ وہ اور ان کے غیر فطری رویے ان کی تنہائی کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ جو بھی ان رویوں سے بالاتر ہوئے، ان کے کردار و عمل نے قومی تشکیل کو فروغ دیا۔ بی ایل اے نے ایک مختصر سے عرصے میں قومی طاقتوں کو پھر سے یکجا کردیا، جس میں جنرل اسلم سمیت جہدکاروں کے سنجیدہ کردار کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے خود مطلق العنانیت کے ماتحت isolation کا نتیجہ دیکھ لیا اور پھر جب انہوں نے جدوجہد کو قومی اداروں کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تو ان کے اس genuine ڈیمانڈ پر کوئی کردار ادا کرنے کی بجائے ان کی کردار کشی کی گئی اور انہیں دیوار سے لگانے کی کوشش بھی کی گئی، لیکن یہ ساری صورتحال از خود فرد واحد کی مزید تنہائی کا نتیجہ بنی۔
فرق یہاں یہ بھی تھا کہ استاد نے تنظیمی فیصلوں میں غلطیوں کی ذمہ داری لیتے ہوئے اصلاح کی کوشش شروع کردی اور اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ ہمیں اس سطح تک لے جایا گیا، جہاں تک نہیں جانا چاہیئے تھا۔ یہ بیانیہ خالصتاً ایک انقلابی نظریئے کی نمائندگی کرتا ہے کہ کوئی غلطیوں کی ذمہ داری اپنے کاندھے لے کر اصلاح کی کوشش کرتا ہے اور پھر جو پیش رفت ہوئی وہ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن دوسری جانب وہی رویے تھے اور مزید مخالفت ہونے لگی لیکن ایک مرحلے پر اس نقصان دہ سوچ کی حقیقت آشکار ہوئی، جب چائینیز انجینیروں پر حملہ ہوا اور اس کی مخالفت کی گئی نہ صرف مخالفت بلکہ جس سطح کا پروپیگنڈہ استاد اسلم کے خلاف کیا گیا اس سے بلوچ قومی کوڈ آف کنڈکٹ کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ ان الزامات سے جہد یا استاد کو تو کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ خود فرد واحد اور ان کے گروہ کی اصلیت مزید واضح ہوگئی۔
اب بحث کو سمیٹتے ہوئے ان کے رویوں کو دیکھا جائے تو یہ سوال ابھرتا ہے کہ انہوں نے کیا کچھ سیکھا اس isolation سے یا نہیں؟
اگر یہ سیکھتے تو ان کے رویوں میں فرق ضرور آتا لیکن ان کے رویے بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں اور ان کی تمام تر توانائی فرد واحد کی ذات کو کرشماتی بیان کرنے کے لیئے ہے اور اس کے لیے وہ دیگر جہدکاروں کو حقیر قرار دینے میں مصروف عمل ہیں جبکہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کرشماتی ہونے کے لیے کردار میں کرشمہ ہونا لازمی ہے، جو تحریک کے لیئے ہو نا کہ اپنی ذات کے لیے تحریک کو قربان کرنے سے کوئی کرشماتی بن سکتا ہے۔ آج کم از کم فرد واحد اور اس سے وابستہ سرکلز کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے کیا کھویا کیا پایا؟
آج اگر آپ اس امید میں رہینگے کہ آپ کے قبائلی مزاج کے لیے قومی تحریک میں کوئی جگہ بنتی ہے تو کم از کم نوجوانوں کے فکر اور عزم کو ایک نظر دیکھ لیں، جو اپنے مقصد سے اس حد تک عشق کرتے ہیں کہ وہ اس کے لیے آخری گولی کا انتخاب اپنے لیئے خود ہی کررہے ہیں۔ اب اس جدوجہد کے رول ماڈل وہ نہیں جو اپنی پرانی تصویروں سے کرشماتی بن جائے بلکہ وہ جنہوں نے خود اپنے اور اپنے پیاروں کے خون سے اس جدوجہد کی مایوسیوں کو توڑا ہے۔ اس مطلق العنانیت کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑی لیکن آفرین ہے استاد کے انقلابی کردار کو جنہوں نے آج تک آپ کا نام لے کر کوئی الزام لگانے کی بجائے سارا بوجھ اپنے کندھوں پر لیا اور وہ سرخرو ہوئے لیکن ایک سوال آپ کے لیئے وہ ضرور چھوڑ گئے کہ آپ نے اپنے اس مطلق العنانیت سے قومی تحریک میں اپنے مقام کو کھو کر کیا پایا؟
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔