شہید امداد جان
مصنف: شھداد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
تقریباً چودہ سال پہلے گریشہ اسپکُنری میں جمعہ خان کے گھر میں ایک بچہ پیدا ہوا، مہرجان نے اپنے بیٹے کا نام امداد جان رکھ دیا۔
ویسے اس دنیا میں روز مائیں بچے جنم دیتے ہیں لیکن اُن ماؤں میں کچھ مائیں ایسی ہوتی ہیں، جس کے جسم سے پلانے والی دودھ میں غیرت ، عزت، بہادری، قوم دوستی اور وطن کی محبت کی تاثیر پائی جاتی ہے۔ انہی ماؤں کا دودھ پی کر بچے اپنے دھرتی ماں پر قربان ہوتے ہیں، اور ایسے بچے جب بڑے ہو جاتے ہیں تو سرزمین پر قابض دشمن کے خلاف مزاحمت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
سامراجی ریاستوں کے قابض ہونے کے بعد مزاحمت کرنے کا کوئی ٹائم ٹیبل نہیں ہو سکتا کیونکہ قابض آپ کو مجبور کر دیتا ہے کہ آپ کم عمری میں ہی قابض کے خلاف مزاحمت کا آغاز کریں۔
اس ماں کا بچہ چاہے بچپن میں ہو یا بلوغت کے وقت، جوانی یا بڑهاپا جب وہ سمجھ جاتا ہے کہ میری سرزمین پر کوئی سامراجی ریاست قابض ہے اور میں غلام ہوں تو وہ دشمن کے خلاف مزاحمت کرنا شروع کرتا ہے۔
–
جب شہید امداد کو یہ احساس ہوا کہ اب مجھے بھی اپنے وطن کے دفاع میں ہتھیار اٹھانا ہے، تو راہ تلاش کرنے لگا کہ اپنے سرزمین کے جانثاروں کے ساتھ وہ بھی پہاڑوں کا رخ کرے، اسی طرح شہید امداد جان نے شہر میں پڑھنے کا بہانہ بنا کر اپنے والد کو کہا کہ وہ اب یہاں نہیں پڑھے گا- بلکہ مزید پڑھنے کیلئے گریشہ جائے گا- اس کی والدین کو یہ معلوم نهیں تھا کہ میرے بیٹے کو اپنے غلام قوم کی اور وطن کی محبت ستا رہی ہے- شہید امداد جان سکول جانے کے بجائے کوہ شاشان جاکر اپنے قوم کے سرمچاروں سے مل کر اپنی جان اپنے مادر وطن پر قربان کرنے کی قسم کھاتا ہے۔ مسلح دوستوں نے شہید امداد جان کو بہت سمجھانے کی کوشش کی، بہت سے دوستوں نے شہید امداد کو واپس جانے کو کہا، بہت سے دوستوں نے منت سماجت کی کہ آپ ابھی بہت چھوٹے ہیں، جنگ کٹھن ہے آپ کی عمر ابھی لڑنے کی نہیں ہے آپ ابھی اپنی پڑھائی پوری کریں۔ آپ ابھی جاکے پڑهو، جب عمر میں بڑے ہوجاوگے، تو پھر واپس آ جاؤ۔ یہ جنگ ختم ہونے والا نہیں ہے یہ جنگ شاید دہائیوں تک جاری رہے، جب آپ کے جنگ کرنے کا وقت آ پہنچے گا، ہم خود آپ کو بلائیں گے لیکن دوستوں کے ہزار اصرار کے باوجود شہید امداد جان نے واپس گھر جانے اور مزید پڑھنے سے انکار کیا۔
شہید امداد جان کا کہنا تھا کہ پڑھتے وہ لوگ ہیں جو سکون سے رہتے ہیں، ہمارے سکولوں پر قابض کی فوج کا قبضہ ہے، گھر جلا دیئے گئے ہیں، سرزمین غلام ہے اور دشمن ہم غلام قوم کو قطعاً پڑھنے نہیں دے گا۔ زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ یکم مئی کو قابض سامراج پاکستانی فوج نے اپنے قافلے اور ڈیتھ اسکواڈ کے ساتھ دو جنگی ہیلی کاپٹروں کو لے کر کوہ شاشان پر شیلنگ کرنا شروع کر دیا، جب جنگ ایک بجے سے شروع هو کر شام آٹھ بجے تک ختم ہوئی، تو شہید امداد جان، شہید جاوید جان ،شہید مجید جان جوانمردی سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے۔
جب شهیدوں کے لاشوں کو پاکستانی فوج نے اپنے قبضے میں لےلیا، تو انہوں نے شهید امداد جان کی کم عمری اور اُسکی ہمت اور جذبے کو دیکھ کر ضرور حیرانگی کا اظہار کیا ہوگا کہ آج چوده سال کے بچہ بھی ہمارے خلاف اپنی دھرتی ماں کی آزادی کیلئے مزاحمت کر رہے ہیں، تو انہوں نے عبرت ضرور حاصل ہوگی کہ ہم میں ضرور بلوچستان پر قبضہ جمائے رکھنے کی حوس ہے، لیکن اس سے ہزار گُنا زیاده جذبہ بلوچ سرمچاروں کو آزادی حاصل کرنے کا ہے، جس کی خاطر شہید امداد جان جیسے کمسن بھی مزاحمت کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور کسی بھی طرح قربانی دینے سے کتراتے نہیں ہیں-
جس پہاڑ پہ شہید امداد جان اپنے ساتهیوں سمیت شہید ہوا، اس پہاڑ کو شاشان کی نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ یہ پہاڑ بلوچستان کے علاقے گریشہ میں واقع ہے، ایک بہت اونچا اور مشہور پہاڑ ہے۔ جب اس پہاڑ پہ شہید امداد جان کمسن بچہ سرمچار بن کر جوانمردی سے لڑکر جام شہادت نوش کرتا ہے، شہید جاوید اور شہید مجید جان جیسے نیک نیت وطن دوست اور ایماندار ساتھی شہید ہو جاتے ہیں تو اس پہاڑ کی اونچائی اُن جیسے نڈر سرمچاروں کی ہمت و حوصلے کے سامنے اپنے اونچائی کو کم سمجھتا ہوگا-
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔