شمس پھر طلوع ہوگا
تحریر۔ چاکر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
زندگی کے اس مختصر سفر میں کچھ ایسی یادیں ہوتی ہیں، جنہیں انسان کبھی بھی بھول نہیں سکتا، شاہد ان لمحات میں انسان فکری طور پر اور مظبوط ہو پایا ہے۔ آزادی کے اس سفر میں کئی ایسے مہربان دوستوں کے ساتھ بھی ہمیں کچھ وقت گذارنے کو ملے ہیں، جن سے ہمیں کافی چیزیں سیکھنے کو ملی ہے، ان دوستوں کی تربیت کی وجہ سے شاید آج ہم تحریک کے اس سفر میں دوستوں کے ساتھ ہمگام ہیں۔
آج میں ایک ایسے عظیم ہستی کے بارے میں کچھ لکھنے جارہا ہوں، جس نے اپنی ساری زندگی بلوچ قومی تحریک کے لیئے وقف کردیا۔ وہ ہستی ماما شمس بلوچ کے نام سے جانا جاتا تھا، جب مجھے تنظیمی کام سے وتاخ یعنی مرکزی کیمپ کی طرف جانا پڑا تو دوستوں نے مجھے ایک جگے کا بتایا ہوا تھا کہ آپ وہاں پہنچ جائیں، کچھ دوست آپ کو لینے آیئنگے۔ میں دوستوں کے بتائے ہوئے جگہ پر پہنچا تو دو سنگت میرے انتظار میں پہلے سے کھڑے تھے، دوست مجھے دیکھ کر میری طرف آنے لگے، جن میں ایک سفید ریش شخص سر پر کیپ اور ایک واسکٹ پینا ہوا تھا، میں نے دوستوں سے ہاتھ ملایا اور پھر دوستوں سے مخاطب ہوا کہ سنگت معذرت مجھے تھوڑا آنے میں دیر ہوگیا، میں تین گھنٹے مسافت سے آرہا ہوں۔ ان دوستوں میں سے ایک دوست نے مجھے کلاشنکوف اور ہاتھ میں جاٹا دیتے ہوئے آگے چلنے کا اشارہ کیا اور کہا یہ جگہ صحیح نہیں تھوڑا آگے جاکر حال حوال کرتے ہیں۔ خیر میں بھی جاٹا پہن کر کلاشنکوف اٹھا کر ان دوستوں کے ساتھ ہمگام ہونے لگا، کافی مسافت کے بعد ہم ایک جگہ پہنچے جہاں دوستوں نے کہا یہاں چائے پی کر اپنے سفر کا پھر سے آغاز کریں گے۔
وہاں بیٹھ کر ان دوستوں سے بلوچی حال حوال ہوا دونوں سنگت میرے لیئے نئے چہرے تھے، جن سے یہ میرا پہلا ملاقات تھا۔ دوسرا دوست اس سفید ریش شخص کو ماما شمس کے نام سے پکار رہا تھا، جیسے ہی ہم چائے پیتے ہی اپنے سفر کیلئے آگے بڑھنا شروع کر دیا، ماما شمس کے ساتھ مجھے بارہ دن گذارنے کو ملے۔ ان دنوں میں ماما شمس کے ساتھ کافی قربت ہوا تھا، مجھے جب بھی موقع ملتا، میں ماما کے پاس جاکر اس سے مجلس شروع کرتا تھا۔ ماما واقعی ایک گوریلا جنگجو تھا، سفر میں ہمیں کہیں بھی دشواری ہوتا، ماما آگے بڑھ کر اس جگہے کو کلئیر کرتا، ماما شہید بالاچ مری کے ساتھ بھی محاذ پر اپنے خدمات سرانجام دے چکا تھا۔ ماما کو ہم جب بھی دیکھتے، ایک نہ ایک کام میں مصروف رہتا تھا، کبھی ماما لکڑیاں لینے جارہا ہوتا، کبھی آٹا گوند رہا اور کبھی ماما روٹیاں بنا رہا ہوتا۔
میں اور دوسرا دوست رات کو قریب سوتے، ماما شمس ہم سے کچھ دور جا کے سوتے تھے، صج سویرے ہلکی سی روشنی پڑتی، تو میرا آنکھ کھلتا تو ماما کی طرف نظر پڑتا ماما آگ کے پاس بیٹھ کر چائے بنارہا ہوتا، جب میں اور دوسرا دوست پہاڑ پر نیٹ ورک کے لیئے جاتے ماما کو ہم وہیں پاتے۔ ایک دن ہم نیٹ ورک پر پہنچے تو ماما نے کہا آپ لوگ بات کر کے پھر آجائیں میں نیچے جاتا ہوں، مجھے روٹیاں بنانا ہے، تو اس وقت وہ دوست فون پر بات کررہا تھا اور میں ماما کو دیکھ رہا تھا، ماما نیچے کی طرف جارہے تھے۔ میری آنکھیں آخری وقت تک ماما کو دیکھ رہے تھے، ماما اترتا جارہا تھا، ماما آج بھی مجھے ایسے محسوس ہورہا ہے آپ ہم سے دور نہیں گئے ہیں، آج بھی آپ ہمارے ساتھ ہو۔
ماما شمس ایک فکر ہے، ماما شمس ایک سوچ ہے، ماما آپ ہم سے جسمانی طور پہ جدا ہوئے ہو لیکن نظریاتی طور پر آپ آج بھی ہمارے ساتھ ہیں، ماما شمس پھر سے طلوع ہوگا، ماما ایک اور روپ بدل کر ہمارے ساتھ ہمگام ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔