سنگت جیئند بلوچ کے دفاع میں
تحریر: میر بلوچستانی
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ قوم اس خطے میں بسنے والے اقوام کی نسبت زیادہ سیاسی شعور رکھنے والی قوم جانی جاتی ہے جس کی بنیادی وجوہات یقیناً بلوچستان کی مسلسل سیاسی جُہد و مزاحمت ہے جس نے عوام کی شعور کو وقتاً فوقتاً جھنجھوڑا ہے۔ مگر حالیہ وقت میں سیاسی تنزلی کی تاریک دورانیے نے بڑی حد تک غیر سیاسی پن کو جنم دے رکھا ہے۔
فکری تربیت کے فقدان کی وجہ سے سطحی بحث و مباحثہ میں نوجوان نسل کی ایک کثیر تعداد اُلجھی ہوئی ہے اور نظریاتی سیاسی وابستگی کے بجائے اندھی تقلید کا راج قدرے رائج ہے۔ پہلے جہاں سیاسی وابستگی قائم کرنے کیلئے کسی تنظیم و جماعت کی نظریاتی اپروچ و پروگرام کے ساتھ اسکی ماضی و حال کا جائزہ لیکر مستقبل کے تناظر کا باریک بینی سے جائزہ لیا جاتا تھا اور کارواں کا حصہ بنا جاتا تھا مگر آج کے وقت میں ان تمام ضروری عوامل کو پرے رکھ کرسطحی چیزوں سے متاثر ہوا جاتا ہے۔ جیسے کہ قائد کی تقریر ،بڑی واہ واہ ہے، قائد کا اسٹائل ٹاٹ باٹ بہت دلکش ہے، قائد کا اٹھنا بیٹھنا بڑے بڑے ناموروں کے ساتھ ہے، قائد اپنے مخالفین کے بارے میں مسخرے اچھے مارتا ہے، قائد کی انگریزی بڑی زبردست ہے وغیرہ وغیرہ۔
اور آج کل سوشل میڈیا کا بھی اتنا گند ہے کہ قائد کے ساتھ جوان کی پروفائل تصویر کھینچی گئی تو بس پھر جے جے کار ہے۔ اور پھر مجال ہے کہ ان کے قائدین کے خلاف کسی نے زبان درازی کی تو،ہڈی پسلی توڑ دینے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے،اور ان میں سے جو تھوڑے زیادہ چالاک سے ہوتے ہیں اور جانتے ہیں کہ قائد سے کچھ نہیں ہونا تو وہ صرف اپنا زاتی مفاد حاصل کرنے کیلئے قائد سے اپنی وفاداری ثابت کرتے رہتے ہیں، ان تمام صورتوں میں دلیل سائنس ،سیاسی مقالہ سب گیا بھاڑ میں، قائد کا اخباری بیان مہینہ بھر کے راشن کا تھیلہ ہوتا ہے جسے ہر محفل میں کھول دیتے ہیں۔
ایسی ہی صورتحال نے ہماری ایک تحریر سے جنم لیا ہے جس میں ہم نے 31نومبر2018 سے لاپتہ بی ایس او کے مرکزی کابینہ ممبر سنگت جیئند بلوچ کی بازیابی کیلئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائد جناب اخترمینگل صاحب سے گذارش کی کہ وہ جیئندبلوچ کی بازیابی کا مطالبہ ایوانِ اقتدار تک پہنچا دیں تاکہ سنگت جیئند کی زندگی بچانے میں مدد مل جائے، ہم نے یہ گذارش اختر مینگل صاحب کے آگے اس لئے پیش کی کیونکہ ایک تو انکو ایوانِ اقتدار تک دسترس حاصل ہے اور دوسرا یہ کہ مینگل صاحب کی انتخابی منشور سے آج کی سیاسی پروگرام تک میں سب سے پہلا نقطہ یہی لاپتہ افراد کی بازیابی کا ہے۔ انہوں نے وزارتوں کو ٹھوکر مار کر بلوچ فرزندوں کو بازیاب کرانے کا جراتمندانہ فیصلہ کیا ہوا ہے تو اصولی طور پر ان ہی کو اپروچ کرنا حق بنتا ہے۔ جناب مینگل کے علاوہ دیگر جماعتوں (بشمول حکومتی جماعت) سے بھی التجا کی گئی کہ وہ کردار ادا کریں مگر درمندانہ امید مینگل صاحب کے آگے خصوصی طور پر رکھی گئی۔
اسی تناظر میں 24 مئی کو ٹویٹر ٹرینڈ کے زریعے اپنی گزارشات اختر مینگل کے سامنے رکھی گئیں مگر کوئی خاطرخواہ رسپانس انکی طرف سے نہیں ملا۔ البتہ سردار مینگل کے پیروکاروں کی بڑی تعداد ہمارے خلاف کُھل کر میدان میں آگئی ہے اور ہمیں خوب بد و رد کر رہے ہیں۔ ان عقیدت مندوں کا ہمیں احسان فراموش گردان کر فرمانا ہے کہ مینگل صاحب وہ واحد ہستی ہیں جوکہ لاپتہ افراد کی بات کر رہے ہیں اور اس مسئلے کو بارہا پارلیمان میں اٹھاتے ہیں اسلئے انہیں ایک اور اضافی بوجھ دلانا ناانصافی ہوگی۔ چند مُریدین تو اس حد تک کہہ گئے کہ جیئندبلوچ کوئی انوکھے شخصیت نہیں ہیں جن کیلئے مینگل صاحب کوئی زحمت اٹھائیں اور سنگت جیئند کی بازیابی کے مطالبے کو “بلوچ اتحاد” پر خطرہ بتا کر ذاتی نوعیت کے بہتان و طنز تراشی بھی کرنے لگ گئے ہیں۔ مینگل کے جماعت کی طلبہ ونگ نے اخباری بیان جاری کرتے ہوئے فرمایا کہ مینگل کے چھ نکات قومی مسئلے کا حتمی حل ہیں (حالانکہ مینگل صاحب خود فرما چُکے ہیں کہ اب انکے نکات کی کوئی اہمیت باقی نہ رہی۔کوئی کمیٹی بھی اس پر نہ بن سکی) اور ساتھ ہی بی ایس او کو نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا کہ اس کا نام کسی کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینگے۔ جیسے بی ایس او کوئی سرکاری ٹھیکہ ہو یا این۔جی۔او ہو جو کسی مخصوص ٹولے کے نام رجسٹر ہے۔
ایسے مریدوں کی عقل یہاں تک محدود ہے کہ کسی گمشدہ کیئے گئے شخص کیلئے کیمپین چلا کر اسکا کیس ہائی لائٹ کرنا بھی انہیں قومی اتحاد کو توڑنا معلوم ہوتا ہے۔ آخر کونسا اتحاد؟ کیسا اتحاد؟ کس کا اتحاد؟ یہ سوالات پوچھنے پر پتا چلتا ہے کہ انکے اپنے مخصوص سرکل کا اتحاد، انکے اپنے اجارے کا اتحاد، ان کی اپنی مخصوص مفادات کا اتحاد،حالانکہ ہم نے یہ کہیں پر بھی نہیں کہا کہ مینگل صاحب کچھ غلط کر رہے ہیں بلکہ ہم نے ان کی کاوشوں کو سراہا اور ان سے امیدیں وابسطہ کرنے کے ہی بدولت سب سے پہلے اپنی فریاد ان تک لے گئے ہیں۔
لاپتہ افراد کا کارڈ/برانڈ جناب اختر مینگل استعمال کر رہے ہیں تو یقینی طور پر اس ایشو سے متعلق کوئی فریاد ہوگی تو انہی سے ہوگی،جو جن متاثرہ افراد کے نام کو استعمال کرکے رہبری کا بیڑا اٹھائے گا تو یقیناً سوالات انہی سے ہوگی۔ جیئندبلوچ ایک گمشدہ فرد ہیں۔ انکے لواحقین کا حق بنتا ہے کہ وہ اپنے لختِ جگر کے نام پر شہرت پانے والے سے ان کی پرساں حال تو کریں،اب کوئی اور شخصیت خود کو اس برانڈ یا چھاپ سے بری کر چُکا ہے ان سے پوچھیں گے تو یقیناً لاتعلقی کا اظہار ہی ملے گا۔ جیسے کہتے ہیں نا کہ انجینئر سے علاج کی توقع نہیں ہوتی اور ڈاکٹر سے بلڈنگ بنانے کی، یہ توقعات ہی ہیں جنکا اعزاز مینگل صاحب کو حاصل ہے۔ مگر ان کے مریدین توقعات کی تذلیل کرکے سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے قائد کی شرف میں کوئی اضافے کا کام کر رہے ہیں۔ ایسے حضرات کو ایک بار اپنی سیاسی بصیرت کا جائزہ لینا چاہیئے۔
جن چھ نکات کو بقولِ مینگل صاحب کے غیر اعلانیہ مسترد کرکے نو مہینے میں کمیٹی تک بنائی نہیں گئی ہے۔ اس پہ خاموشی اختیار کرکے انتظار کرنا چہ معنی دارد؟ اور جو لسٹ مینگل صاحب کی جانب سے اسمبلی میں پیش کی گئی تھی جیئند بلوچ سمیت سینکڑوں اور پیر و ورنا اسکے بعد لاپتہ کیئے جا چکے ہیں تو کیا ان کا کیس دوبارہ دلی تسلی کیلئے ہی صحیح پیش کرنا کوئی بڑی آفت والی بات ہوگی؟
جو حضرات فرماتے ہیں کہ صرف جیئند ہی کیوں؟ باقی افراد کا نام کیوں نہیں لے رہے؟ وہ اپنی اطلاع میں اضافہ کریں کہ سنگت جیئند باقی سب کیلئے آواز اٹھانے کی پاداش میں ہی لاپتہ کیئے جا چکے ہیں اور وہ ایک طلباء رہنما بھی ہیں ان کیلئے خصوصی مہم چلانا سب کے ہی حق میں ہے۔ ویسے بھی باقی سبھی کیلئے آواز ہمیشہ بلند کرتے رہے ہیں۔ ہمارے لیئے سب اہم ہیں اور سبھی رہا ہونے چاہئیں۔ ہمارا ان مریدین کیلئے صرف انکی شعوری اضافے کی خاطر سوال ہے کہ پچھلے چند دنوں میں پشتون تحفظ موومنٹ کے ساتھ جو ناخوشگوار واقعہ پیش آیا جس میں علی وزیر سمیت کئی افراد گرفتاری بعد لاپتہ کیئے جا چُکے ہیں مگر سوشل میڈیا پر صرف #whereIsAliWazir کیوں چھائے ہوئے ہیں؟ بلوچ لاپتہ افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے مگر جو نام زیادہ چھائے ہوئے ہیں ان میں ذاکرمجید، زاہد بلوچ، شبیر بلوچ اور دیگر کیوں سرِفہرست ہیں؟ اخترمینگل مِسنگ پرسنز کے ایشو پر جب بھی بات کرتے ہیں اپنے بھائی اسدبلوچ کا مثال کیوں لازمی دیتے ہیں؟ اس سوال کا جواب خود سے ڈھونڈیں اور ذرا اپنے عقل کو استعمال میں لائیں۔ تنقید برائے تنقید مسائل کا حل نہیں ہوتا۔
جہاں تک بات ہے بی-ایس-او کی تو یہ غلط فہمی کسی کو رہے کہ کوئی بھی ایک مخصوص ٹولہ اس پہ ٹپہّ لگا کر باقی تمام طلباء کو ان کی تاریخی وراثت سے محروم رکھے گا۔ بی-ایس-او ایک قومی میراث ہے اور اس پر حق ہر نئی نسل کا ہے۔ اس کی عظیم تاریخ اور عظیم قربانیوں کی پاسداری جو بھی کرنے کے اہل ہوگا وہ اس سُرخ پرچم کو بلند کرنے کو بااختیار ہوگا۔ ہاں اس گران بار کو اٹھانا ہر کسی کا کام نہیں مگر جیئندبلوچ جیسے بہادر سپوتوں کا کارواں یقینی طور پر اسکی لاج رکھنے کا اہل ہے۔ تاریخ اس کی شاہد رہے گی۔
مختصر یہ کہ جیئندبلوچ طلبہ لیڈر ہیں اور طلباء اپنے رہبر اپنے ساتھی کی بازیابی کا مطالبہ بارہا کرتے رہیں گے۔ متاثرین کی محرومیوں کو استعمال کرنے والے شہرت یافتہ تمام شخصیات کو طلباء احتساب کے کٹہرے میں لاکر بارہا پوچھ گچھ کرتے رہینگے۔ باقی مجرموں کے ہمکار جماعتوں سے خاص امید تو نہیں مگر انہیں بھی اپنے ساتھیوں کی بازیابی کیلئے گزارش کرتے ہیں کہ خدارا ہمارے عزیزوں کو اب ہمیں لوٹا دیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔