دوست نما دشمن
مہروان لانگو
دی بلوچستان پوسٹ
قوموں اور تحریکوں میں اکثر ایسے کردار موجود ہوتے ہیں، جنکے قول اور فعل میں تضاد بنیادی عنصر کی حثیت رکھتا ہے مگر اپنے موقع پرستانہ پالیسی کے وجہ سے وہ خود کو قوم کے سامنے اپنی اصل شکل میں پیش کرنے کی سکت نہیں رکھتے، مگر جب انہیں کوئی موقع میسر آتا ہے تو وہ اپنے اگلے اورپچھلے سارے مذموم عزائم سے اپنے آقا کو خوش کرنے کے لیئے انتہائی مہارت سے سرگرم ہوتے ہیں۔
موجودہ بلوچ قومی آزادی کی جنگ میں اس کردار کو بی این پی مینگل بخوبی نبھا رہا ہے، گو کہ بی این پی مینگل نے اپنے چھ نکاتی ایجنڈے میں مسنگ پرسنز کا نکتہ ڈال کر اپنے سابقہ عیاریوں کو بلوچ قوم کے سامنے مٹانے کی ایک بار پھر کوشش کی جو کہ کارگر ثابت نہیں ہوا۔
پاکستانی ایجنسیوں نے اختر مینگل کی بے زبانیوں کے بدنما کردار کو بلوچ قوم کے سامنے چھپانے کے لیئے مسنگ پرسنز کے رہائی کا لولی پاپ دینے کی منصوبہ بنایا، جو کہ فلاپ ہوگیا. بعد میں موجودہ وزیر داخلہ میر ضیاء اللّہ لانگو کو سیٹ کی قیمت اور پاکستانی ایجنسیوں کی حکم بجا لانے کے بابت، مسنگ پرسنز کے کیمپ بھیجوا کر اور جھوٹے وعدے کروائے گئے اور ہزاروں کی تعداد میں مسنگ پرسنز سے چند ایک کو نیم مردہ حالات میں چھوڑ دیا گیا جو کہ پاکستانی ریاست کے لیئے کچھ زیادہ مفید منصوبہ ثابت نہیں ہوسکا۔
اب اختر مینگل اور اختر مینگل کے حواریوں کو مجبورآ پاکستانی ایجنسیوں کو کھل کر سامنے لانے کی ضرورت پڑ رہی ہے۔
پچھلے دنوں اختر مینگل کے دستِ راست سابقہ گوریلا شہید لونگ خان کے بیٹے قمبر مینگل کی سربراہی میں پاکستانی پراکسی ڈیتھ اسکواڈ کے ممبران شفیق مینگل، ذکریا محمد حسنی، رحیم ساسولی، ممتاز ساسولی خارانی کے کارندوں کو دشت گوران اور شور پارود کے آس پاس جمع کیا گیا۔
گذشتہ دنوں تین بلوچ سرمچار ماما شمس پرکانی، ڈاکٹر شعیب بلوچ اور ظفر محمد حسنی انہی بی این پی مینگل کیلئے نرم گوشہ رکھنے والوں کے ہاتھوں شہید کروائے گئے۔ یہ اس بات کا مظہر ہے کہ بی این پی مینگل کے اندر موجود عناصر کا دشمن ریاست کے ساتھ رشتہ کتنا مضبوط ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔