جھوٹا اور ناکام ریاسَت ۔ ملنگ کلمتی

361

جھوٹا اور ناکام ریاسَت

ملنگ کلمتی

دی بلوچستان پوسٹ 

فارسی شاعر صائب تیزی فرماتے ھیں ” چون گذارَد خشتِ اوّل بَر زمین معمار کَج ، گَر رِسانَد بَر فَلَک باشَد ھمان دیوارِ کَج” یعنی دیوار کی بنانے والے اگر دیوار کی بنیاد اور پہلا خِشت تیڑھی رکھ لیں، تو اُس دیوار کو اگر آسمان کی بلندی تک لے جایا جائے پِھر بھی دیوار تیڑھا ہی رہے گا۔

اِسی طرح اس ریاست کا قیام بھی جھوٹ اور جبری قبضے کی بنیاد پر ہے اور شروع دِن سے جھوٹ کا سہارا لے کر پل رہا ہے۔ اس غیرفطری ریاست کے قیام کی وقت بلوچستان ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی صورت میں موجود تھا اور اِس ناپاک ریاست کے قیام کی بعد جب انہوں نے ایک اَلگ آزاد اور خود مختار ریاست کو خود سے ملانے کی سازِش کی اور دین کی نام پَر شامل ہونے کی درخواست دی اور درخواست رد ہونے کی صورت میں اپنا طاقت استمال کر کے جابرانہ صورت میں بلوچ ریاست پر حملہ کرکے اِس دَھرتی پر اپنا قبضہ جَما لیا۔

اُس دِن سے لیکر آج 72 سال گذرنے کی باوجود بلوچ قوم کی مزاحمت (جو پِہلے ھی دِن سے آغا عبدالکریم کی صورت میں اُبھرا تھا) اپنی پاک دھرتی پر اِس ناپاک ریاست کی جابِرانہ قبضے کی خلاف جاری ہے۔

بابو نواب نوروز خان کے دور میں جب مزاحمت نے شدّت اختیار کرلی تو اِس ناپاک ریاست نے قرآن پاک جیسے عظیم آسمانی کتاب کی جھوٹی قسم کا سہارا لے کر بابو نوروز خان اور ساتھیوں کو پہاڑوں سے اتار کر پھانسی دے دیا اور اُس کی بعد بھی بلوچ مزاحمت ختم نہیں ہوئی، بلکہ مزاحمت نے اور شدّت اختیار کرلی۔

اِس ریاست کے ناجائز اور ہیرا منڈی کی پیداوار ہر جرنیل، خون خوار بھٹو سے لیکر مشرفّ جیسے درندوں تک اپنے اعلیٰ طاقت اور زور آزما کر بھی بلوچوں کی اِس مزاحمت کو ختم نہ کر سکیں، جو آج تک انتہائی شدّت سے جاری و ساری ہے، اور اِس سرزمین کے شیدائی اپنے مادرِ وطن کے جبری قبضے کی خلاف ھَر دَم مَر مٹنے کو تیارہیں۔

آج بلوچ کے اس دفاعی مزاحمت نے استاد اسلم جیسے عظیم فرزند کے بدولت فدائی روپ اپنالیاہے اور اِس چَمن کے خوشبودار پھول کبھی ریحان جان کی صورت میں، کبھی رازق ، وسیم اور اَزَل جان تو کبھی اسد ، منصف ، کچکول اور ھمّل جان کی صورت میں ناپاک دشمن پَر قھر بن کر ٹوٹ پڑتے ھیں۔

استاد اسلم کی کماندَھی پَر جب رازق، وسیم اور ازل جان نے کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ کیا اور اِس ناپاک ریاست اور چائنا کو یہ سبق سکھایا کہ بلوچ دَھرتی لا وارث نہیں جو اُسکا سودا پنجابی ناپاک ریاست بیرونی ممالِک سے کرے۔

اِس حملے کی بعد ھیرامنڈی کی پیداواروں کی فوج اور انٹیلیجنٹس ہمیشہ کی طرح اِس حملے کی منصوبہ بندی میں ملوثّ بلوچ فرزندوں کی سراغ نہ لگا سکا اور دو بلوچ طالب علموں کو (جو حملے سے کچھ دن پھلے شال(کوئٹہ) سے لاپتہ کردیئے گئے تھے اور اُن کی بازیابی کیلئے لواحقین نے کوئٹہ میں احتجاج بھی کیا تھا) اور تین اور بے گناہ لوگوں کو جھوٹ کا ڈرامہ رچا کر حملہ آورں کا مددگار ظاھر کردیا، جو اب تک اِس ریاست کے ٹارچر سیلوں میں بے گناہی کی سزا بھگت رہے ہیں۔.

ناپاک ریاست کیلئے اس حملے کی تپش تھوڑی بہت تیز تھی اور اِسکی رسائی عالمی میڈیا تک ہوگئی تھی، اس لیئے ھیرامنڈی کی ہمیشہ ناکام ھونے والا انٹیلیجنٹس اداروں نے ایک اور جھوٹا ڈرامہ رچا کر اِس حملے میں ملوّث بلوچ جانبازوں کو لاپتہ افراد قرار دیا تھا، جو بلوچ سیاسی رہنما اختر مینگل اور بلوچ وائس فار مسنگ پرسنز کی وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کے واضح ثبوت پیش کرنے کی بعد بے نقاب ھو گیا تھا اور آج استاد اسلم کی مشن کو آگے لے جاتے ہوئے جب 11 may 2019 کو بلوچ دَھرتی کی چار جان نثار فرزند اسد، منصف، کچکول اور ھمّل نے گوادر میں فائیو اسٹار ھوٹل “پرل کانٹینینٹل” پر حملہ کیا تو ایک بار پِھر اِس ناپاک ریاست نے جھوٹے خبر پھیلا کَر بلوچ جانبازوں کو مسنگ پرسنز ظاھر کرنے کی ناکام کوشش کی اور اس مرتبہ بھی ناکام رہا۔

بلوچ دَھرتی کے شہزادے ہمیشہ اپنے حکمت عملیوں سے ناپاک ریاست کے فوج اور انٹیلیجس اداروں کو مات دے کر آ رہے ہیں اور یہ ریاست بیرونی سرمایہ کاروں کو جھوٹے دلاسے دینے کی کوشش میں مصروف اور اُنکی قرضوں کی بدولت ابھی تک سانس لے رھا ہے۔ پر کب تک جھوٹ کا سہارا لیکر حقائق کو چھپاتا رہے گا؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔