بلوچستان میں تھیلیسیمیا کی صورتحال تشویشناک اس لیے ہورہی ہے کہ یہاں رسم و رواج کی وجہ سے خاندان میں پے درپے شادیوں یعنی کزن میرج کی شرح بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے تھیلیسیمیا کامرض شدت اختیار کررہا ہے – ڈاکٹر ندیم صمد
بولان میڈیکل کمپلیکس کے شعبہ ہیماٹالوجی کے سربراہ پروفیسر ندیم صمد کے مطابق بلوچستان میں ہر سال تھیلیسیمیا کے 2 ہزار نئے کیسز سامنے آرہے ہیں اور صوبے کے ہر ضلع میں تھیلیسیمیا کیئر سینٹر نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات بڑھ رہی ہیں ۔ صوبے میں تھیلیسیمیا کے بڑھتے کیسز کے باعث ایک خاندان کے چار افراد بھی اس بیماری میں مبتلا ہیں ۔
کوئٹہ کے وسطی علاقے جناح روڈ پر واقعے تھیلیسیمیا کیئر سینٹر میں موجود 18 سالہ نوجوان عطا اللہ نے میڈیا نمائندوں کو بتایا کہ ہم 12 بہن بھائی ہیں جن میں سے 4 کو تھیلیسیمیا کا مسئلہ ہے، اس مرض کے شکار ایک بھائی اور 3 بہنیں مجھ سے چھوٹے ہیں ۔
عطا اللہ نے بتایا کہ میرے والد کا چھوٹا کاروبار ہے، تھیلیسیما کے مرض کی وجہ سے تقریبا ًہر ماہ بہنوں اور بھائی کو خون لگوانا پڑتا ہے کبھی تو خون کا بندوبست ہوجاتا ہے اور کبھی بہت مشکل ہوجاتی ہے ۔ عطا اللہ نے مزید بتایا کہ مجھ سے بڑے 3 بھائی ہیں کبھی وہ انہیں خون کیلئے تھیلیسیمیا سینٹر لاتے ہیں تو کبھی میری ذمہ داری ہوتی ہے، اپنے بیمار بہنوں اور بھائی کو دیکھتا ہوں تو ان کی بیماری اور بے بسی پر دل خون کے آنسو روتا ہے ۔
نوجوان کا کہنا تھا کہ خون نہ ہونے کی وجہ سے چاروں بچوں کو اکٹھے سینٹر نہیں لاسکتے اور اب تو علاقے میں بھی لوگ ہم سے کتراتے ہیں کہ کہیں یہ لوگ بچوں کے لیے خون ہی نہ مانگ لیں کیونکہ اب یہ مسلسل اور مستقل مسئلہ ہے ۔
اسی طرح کی صورتحال کوئٹہ کے ہی نواحی علاقے سریاب کے رہائشی محمد سرفراز کے ساتھ بھی ہے جس کے 4 میں سے 2 بچے تھیلیسیمیا میں مبتلا ہیں ۔ یہ صرف عطا اللہ یا سرفراز کی کہانی نہیں بلکہ اب اس طرح کے بہت سے گھر ہیں جہاں تھیلیسیمیا کے شکار ایک سے زائد بچے موجود ہیں جس سے ان کی بے بسی اور مالی و معاشرتی مشکلات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے لیکن ایسا کیوں ہے جب اس حوالے سے اس شعبے کے ماہر اور بولان میڈیکل کمپلیکس اسپتال میں شعبہ ہیماٹالوجی کے سربراہ اور تھیلیسیمیا کیئر سینٹر کے انچارج پروفیسر ڈاکٹر ندیم صمد شیخ سے وجوہات معلوم کی گئیں تو ان کا کہنا تھا کہ تھیلیسیمیا خون کی ایسی موروثی جنیاتی بیماری ہے جو تھیلیسیمیا مائنر کے جین کے حامل والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے ۔
ڈاکٹر ندیم صمد نے بتایا کہ بلوچستان میں تھیلیسیمیا کی صورتحال تشویشناک اس لیے ہورہی ہے کہ یہاں رسم و رواج کی وجہ سے خاندان میں پے درپے شادیوں یعنی کزن میرج کی شرح بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے تھیلیسیمیا کامرض شدت اختیار کررہا ہے ۔
ڈاکٹر ندیم نے کہا کہ اس حوالے سے لوگوں میں شعور و آگہی کا فقدان ہے، اگر کسی شخص کے جین میں تھیلسیمیامائنر ہو اور اس کی بیوی بھی تھیلیسیمیامائنر کے جین کی حامل ہو تو ان کی اولاد تھیلیسیمیامیجر کاشکار ہوگی، اس میں کچھ بچے صحت مند اور تندرست بھی ہوسکتے ہیں لیکن احتمال ہے کہ کچھ بچے نارمل ہوں اور کچھ بچے تھیلیسیمیا کاشکار ہوں ۔
پروفیسر ڈاکٹر ندیم صمد نے مزید کہا کہ ایک انداز ے کے مطابق بلوچستان میں ہر سال تھیلیسیمیا کے 2 ہزار نئے کیسز سامنے آرہے ہیں ، صوبے کے ہر ضلع میں تھیلیسیمیا کیئر سینٹر نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات بڑھ رہی ہیں ، کچھ تو انتقال خون اور نگہداشت کے لیے کوءٹہ پہنچ جاتے ہیں لیکن کچھ افراد زیادہ فاصلوں اور غربت کی وجہ سے یہاں نہیں پہنچ پاتے، اس طرح وہ خون کی بروقت منتقلی نہ ہونے، مرض کی پیچیدگی یا دیگر وجوہات کی بنا پر انتقال کر جاتے ہیں یا پھر وہ پنجاب یا سندھ چلے جاتے ہیں ۔