بی ایل ایف کے شہید سرمچاروں کو سلام
زہیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ قومی فوج کی حیثیت سے بی ایل ایف روز اوّل سے اپنی فوجی طاقت سے دشمن کے سامنے ڈٹا ہوا ہے، اپنے وجود سے لیکر آج تک بلوچستان میں پاکستانی فوج اور سامراجی منصوبوں کے سامنے بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سرمچار ایک پہاڑ کی مانند کھڑے رہے ہیں اور اپنی گوریلا کارروائیوں سے دشمن کو چین سے بیٹھنے نہیں دیا ہے۔ بلوچستان لبریشن فرنٹ کی جنگی کارروائیوں سے خائف پاکستانی فوج نے بلوچستان خاص طور پر مکران جہاں بی ایل ایف کے جانباز زیادہ ایکٹیو رہے ہیں، پورا ایک فوجی قلعے میں تبدیل کر دیا ہے۔ مکران کا ایک بھی ایسا گاؤں یا قصبہ نہیں جہاں قابض فوج نے اپنے فوجی کیمپ قائم نہیں کیئے ہیں۔ ان سب سختیوں اور دشمن کی لاکھوں کی تعداد میں مکران میں فوجیوں کی تعیناتی کے باوجود ہم دیکھتے آ رہے ہیں کہ بلوچستان لبریشن فرنٹ کی جنگی کارروائیوں میں کوئی کمی آنے کو نہیں ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دشمن بلوچستان میں دربدر ہے۔
بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان گہرام بلوچ نے 2018 کی سالانہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ سال 2018 میں قابض فوج پر 389 حملے ہوئے ہیں، ایک سال میں پاکستان جیسی طاقتور فوج پر اتنی بڑی تعداد میں حملے خود بلوچستان لبریشن فرنٹ کی جنگی قوت کا مظاہرہ ہے۔ بلوچستان میں ایک بھی ایسا دن نہیں گذرتا، جہاں بی ایل ایف کے کوہسار اپنی مٹی اور سرزمین کی دفاع میں دشمن سے نبردآزما نہیں ہوتے ہیں۔ اگر مشغلوں اور مفروضوں سے نکل کر حقیقی حالات کا جائزہ لیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ بلوچستان لبریشن فرنٹ قومی فرنٹ کی حیثیت سے ہمیشہ سے دشمن کے سامنے سب سے بڑا خطرہ اور فوجی طاقت رہا ہے، جنگی کارروائیوں سے لیکر دشمن کے سامراجی منصوبے سی پیک پر حملے بلوچستان لبریشن فرنٹ نے دشمن کو شکست فاش دیا ہے۔ بلوچستان لبریشن فرنٹ کی جانباز سرمچاروں کی کارروائیوں سے قومی غدار بھی محفوظ نہیں رہے ہیں، آج بھی اُن کے دل میں بی ایل ایف کا خطرہ موجود ہے ایک قومی ادارے کی حیثیت سے ہم نے دیکھا ہے کہ پیچھلے 15 سالوں میں بلوچستان لبریشن فرنٹ کی قیادت سے لیکر سپاہیوں نے عظیم قربانیاں دی ہیں۔ آج اُن کی قربانیوں، محنت و مشقت اور اُن کی دلیرانہ جدوجہد کا سبب ہے کہ بی ایک ایف ایک قومی ادارے کی حیثیت سے دشمن کے سامنے ایک جنگی قوت کے ساتھ مدمقابل ہے۔ کوئٹہ، کراچی، قلات سے لیکر مکران تک بی ایل ایف کے عظیم جانثاروں نے اپنی جانیں دے کر قومی فوج کو بلوچستان کے ہر کونے میں مضبوط و مربوط کیا ہے۔ دوستوں ساتھیوں اور قیادت کی اَنتھک محنت اور قربانیاں ہیں کہ آج دشمن بی ایل ایف کے سامنے بےبس دیکھائی دیتا ہے۔
اس دورانیئے میں بلوچستان لبریشن فرنٹ کی قیادت کو مختلف مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، دشمن سے لیکر کچھ نادان دوستوں تک قومی فوج کے خلاف کچھ مخصوص افراد نے بھی تنظیم کے بارے میں عوام کے دل میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن بلوچستان لبریشن فرنٹ کی مخلص قیادت نے ہر مسئلے کا صبر و تحمل سے مقابلہ کیا، کسی بھی طرح کسی بھی کلیش میں جانے کو اجتماعی قومی نقصان گردانا اور ہر مسئلے کو حل کی جانب لے گیا۔ آج دوستوں کی قائدانہ رہنمائی ہی ہے کہ بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سرمچار ایک ہی محاذ سے دشمن کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ جس کو میں سمیت پوری قوم بلوچ جنگ کی سب سے بڑی کامیابی گردانتی ہے، سب دوستوں کی محنت اور قائدانہ کوششیں ہیں کہ آج بلوچ قوم کو براس جیسی ایک قومی فوج نصیب ہوا ہے، جس کا پوری قوم سالوں سے شدت سے انتظار کر رہا تھا۔
بلوچستان لبریشن فرنٹ چونکہ گوریلا کارروائیوں میں شدت جاری رکھنے پر بھروسہ رکھتا ہے، اس لیئے ان کے جانباز بلوچستان کے ہر کونے میں چوبیس گھنٹے ایکٹیو رہتے ہیں، کچھ دنوں پہلے گریشہ میں قابض پاکستانی فوج نے مقامی ڈیٹھ اسکواڈ کے ساتھ ایک مشترکہ کارروائی کی جس میں گن شپ ہیلی کاپٹروں کا بھی استعمال عمل میں لایا گیا چونکہ ہر ایک بلوچ قومی سرمچار دشمن کے سو فوجیوں کے برابر ہوتا ہے، اس لیئے دشمن کے سو فوجی ملکر بھی ایک سرمچار کا جنگی میدان میں مقابلہ نہیں کر پاتے ہیں۔ اس لیئے دشمن نے گریشہ حملے میں ہیلی کاپٹروں کا استعمال عمل میں لایا کیونکہ دشمن کو اس بات کا علم تھا کہ زمینی حملے میں بلوچ سرمچاروں کو شکست نہیں دیا جاسکتا، دشمن کی ان کاروائیوں سے تین عظیم بلوچ جہد کار وطن کی دفاع میں کئی سالوں سے پہاڑوں کے دامنوں میں دشمن سے نبردآزما، تین عظیم سپاہی وطن کی آزادی کیلئے شہید ہوئے۔ جن میں شہید مجید عرف کمک، جاوید عرف شاسا اور امداد عرف شہباز نے جام شہادت نوش کی۔
ہمیں دشمن کی آمد سے پہلے ہمارے دوست ہم سے ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ آزادی خون مانگتی ہے اور آج اس کا عملی مظاہرہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، شہید امداد نے ایک اور کہاوت کو سچ کرکے دکھایا جس کا پچھلے پندرہ سالوں سے ہم دعویٰ کرتے آ رہے ہیں کہ دشمن کے خلاف ہمارے بزرگوں سے لیکر کسان عمر لڑکے جو بچوں کی عمر میں شمار ہوتے ہیں لڑ رہے ہیں۔ شہید امداد کی عمر تقریباً چودہ سے پندرہ سال کے درمیان ہے، اس عمر میں قابض کی پہچان اور دھرتی پر قربان ہونا اصل میں آزادی کو معنی اور مفہوم دیتی ہے۔ شہید امداد جان نے مجھے 1944 میں روس کیلئے قربانی دینے والے شاشا کی یاد دلائی جو جرمن جنرل کو مارنے کیلئے 13 سال کی عمر میں جاسوسی کا عمل انجام دیتا ہے اور بالآخر اپنی قوم کیلئے قربان ہوتا ہے۔
اسی ہی دن کیچ کے علاقے بالگتر میں بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سرمچاروں پر قابض فوج نے حملہ کر دیا، اس حملے میں قابض سے لڑتے ہوئے شہید اکبر عرف مراد نے جام شہادت نوش کی۔ شہید اکبر چھ سالوں سے بلوچستان لبریشن فرنٹ کے پلیٹ فارم سے قومی ذمہ داریاں ادا کر رہا تھا۔ وہ کیمپ ڈپٹی کمانڈر تھا، اس کے اگلے ہی دن ایک اور کارروائی میں قابض فوج نے بلیدہ میں تین مزید ساتھیوں پر حملہ کیا، دشمن اپنے اس حملے میں بھی کامیاب رہا جہاں بلوچستان لبریشن فرنٹ کے تین عظیم سپاہی اور قومی جہد کار نعیم عرف جلال جو چھ سالوں سے قابض فوج کے خلاف جدوجہد کر رہا تھا اور پیچھلے تین سالوں سے بی ایل ایف کے پلیٹ فارم سے دشمن سے نبردآزما تھا، ظہیر عرف مراد سکنہ مشکے جو پچھلے کئی سالوں سے قابض سے مختلف محاذوں پر لڑ رہا تھا اور اپنی قومی ذمہ داریاں ادا کر رہا تھا اور خیر محمد عرف رحمت جو تنظیم کے ایک سینئر ساتھی تھے شہید ہوئے۔
یقیناً ان کی شہادت ایک قومی المیہ اور سانحہ سے کم نہیں ہے لیکن شہادتوں سے تنظیمیں ختم نہیں ہوئے ہیں البتہ کمزوریاں ضرور ہونگے، نقصان بڑا ہوگا لیکن انقلابی جنگوں میں شہادتیں لازمی امر ہوتے ہیں البتہ جتنا کم نقصان ہوگا، قوم اور پارٹی کیلئے اتنا ہی فائدہ ہوگا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ بلوچستان لبریشن فرنٹ ایک فوجی طاقت کی حیثیت سے شہید ساتھیوں کی شہادت کا بدلا دشمن سے جلد لے گا اور اُن ڈیٹھ اسکواڈ کے کارندوں کو بھی جلد کیفرکردار تک پہنچائے گا جو سرمچار ساتھیوں کی شہادت میں قابض فوج کے معاون کار بنے رہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔