بلوچ و پشتون اقوام کا دشمن مشترکہ ہے، پشتون قیادت متنازعہ بیانات دینے سے گریز کرے – بی این ایم

301

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ پاکستان بلوچ اور پشتون اقوام کا مشترک دشمن ہے۔1947 میں تقسیم ہند کے وقت برطانوی حکام نے برٹش بلوچستان میں شامل بلوچ اور پشتون علاقوں سے متعلق خوانین قلات اور افغانستان کے ساتھ اپنے معاہدوں اور ان کی قانونی و قومی حیثیت کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے برطانوی بلوچستان کو قیام پاکستان سے قبل پاکستان میں شامل کرنے کا اعلان کیا جس کی بلوچ قیادت نے بشمول خان قلات شدید مخالفت کی اور وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن و مسلم لیگی قیادت کے ساتھ 4 گست 1947 کو دہلی میں منعقد گول میز کانفرنس میں بھی ریاست قلات کے نمائندوں نے اس مسئلے کو اٹھایا اور برٹش بلوچستان میں شامل کوئٹہ و بولان سمیت تمام بلوچ علاقوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ اسی طرح پشتون عوام کی طرف سے عبدالصمد خان اچکزئی نے بھی برٹش بلوچستان کے پشتون علاقوں کو پاکستان میں شامل کرنے کی مخالفت کی مگر برطانوی حکام نے برٹش بلوچستان میں شامل بلوچ و پشتون علاقوں سے متعلق خوانین قلات اور افغانستان کے ساتھ اپنے معاہدوں اور عالمی قوانین کے برعکس ان بلوچ و پشتون علاقوں کو اپنی نئی تخلیق یعنی پاکستان کے حوالہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبہ (موجودہ خیبر پختونخواہ) کے رہنما خدائی خدمت گار خان عبدالغفار خان کی قیادت میں بھی پشتون عوام نے پاکستان میں شمولیت کی مخالفت کی مگر ایک جعلی اور متنازعہ ریفرنڈم کی بنیاد پر پشتون عوام کی مرضی و قومی مفاد کے برعکس شمال مغربی سرحدی صوبہ کو بھی پاکستان نے قبضہ کرلیا۔ اسی طرح مارچ 1948 میں قلات (تب بلوچستان کا آفیشنل نام) پارلیمان کی دونوں ایوانوں کے واضح فیصلہ و بلوچ عوام کی مرضی و مفادات کے برعکس بلوچستان پر بھی پاکستان نے جبراً قبضہ کیا۔ اس کے خلاف بلوچ قوم نے آغا عبدالکریم بلوچ کی قیادت میں آزادی کی تحریک چلائی جو مختلف نشیب و فراز سے گذر تے ہوئے آج بھی جاری ہے۔ دوسری طرف افغانستان نے ڈیورینڈ لائن کو سرحد ماننے سے انکار کرتے ہوئے پشتون علاقوں پر اپنا قومی و تاریخی حق جتایااور آج تک ڈیورینڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔

مرکزی ترجمان نے کہا کہ اس صورتحال کا تقاضہ یہ ہے کہ بلوچ اور پشتون قیادت اس جبری قبضہ ، ظلم و جبر اور نسل کشی کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی راہ ہموار کریں اور ایسا کرنے کیلئے ایک دوسرے کے قومی جغرافیہ اور مفادات کا احترام کیا جائے۔ مگر بعض پشتون لیڈروں کی جانب سے اکثر و بیشتر بلوچ جغرافیہ کے بارے میں ایسے بیانات دیئے جاتے ہیں جن سے توسیع پسندی کی بُو آتی ہے۔ ایسے بیانات کی وجہ سے مشترکہ دشمن کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی کوششوں کو نقصان پہنچتا ہے اور اس صورتحال کا فائدہ ہمارے مشترکہ دشمن پاکستان اور اس کی پنجابی اسٹیبلشمنٹ کو ہوگا۔ گزشتہ دنوں پاکستان فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں پشتون تحفظ موومنٹ پر لگائے گئے الزامات کا جواب لینے کیلئے وائس آف امریکہ اردو سروس کے نیلوفر مغل نے پی ٹی ایم کے رہنما جناب منظور پشتین کا فیسبک پر ایک لائیو انٹرویو کیا۔ مذکورہ انٹرویو میں میزبان نے جناب منظور پشتین سے ایک سوال پُوچھا کہ “پشتون وطن” سے آپ کی کیا مراد ہے؟ اس سوال کے جواب میں جناب منظور پشتین نے کہا کہ “سوات و چترال سے لے کر بولان اور کوئٹہ تک پشتون وطن ہے“۔ جناب منظور پشتین کا یہ بیان ایک طرف تو کوئٹہ اور بولان جیسے اہم ترین بلوچ علاقوں کی جانب توسیع پسندانہ خیالات پر مبنی ہے تو دوسری جانب پشتون وطن کے حوالے سے مبہم بھی ہے۔ پشتون وطن کا بڑا حصہ ڈیورینڈ لائن کے دوسری طرف افغانستان میں شامل ہے اور ڈیورینڈ لائن کے دونوں جانب پورا پشتونخواہ افغانستان کا حصہ ہے۔ مگر نہ جانے کیوں جناب منظور پشتین نے ڈیورینڈ لائن کے دونوں جانب پشتون وطن کی بات کرنے اور اسے افغانستان کا علاقہ کہنے سے گریز کیا؟

بی این ایم کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ کوئٹہ اور بولان جیسے بلوچ علاقوں کے بارے میں کسی پشتون رہنما کا یہ پہلا بیان نہیں ہے بلکہ پاکستانی آئینی اور غیرفطری جغرافیائی ڈھانچہ کو عملاً تسلیم کرنے اور اس کی پارلیمانی سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے بعض پشتون رہنما اور گروہ اکثر ایسے بیانات دیتے رہتے ہیں مگر بلوچ آزادی پسند تنظیمیں ان کے ایسے بیانات کو پنجابی آقاؤں کو خوش کرنے، ووٹ بینک بڑھانے اور شراکت اقتدار کی کوشش کے طورپر دیکھتے اور نظرانداز کرتے رہے ہیں۔ مگر منظور پشتین کا بیان ایک سنجیدہ مسئلہ ہے کیونکہ پی ٹی ایم پشتون تحریک کی نئی ابھار کے طور پر سامنے آیا ہے اور انہوں نے افغانستان میں چار دہائیوں سے جاری پروکسی جنگ و ڈیورینڈ لائن کے دونوں جانب پشتونوں کی تباہی و بربادی کے اصل ذمہ دار کی تعین کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کئے بغیر پاکستان، اس کی فوج اور خفیہ اداروں کو اس کی ذمہ دار ٹھہراتا رہاہے۔ جس کی وجہ سےانھیں پشتون عوام بالخصوص نوجوانوں کی جانب سے اچھی خاصی پزیرائی مل رہی ہے اور بلوچ آزادی پسند بھی پی ٹی ایم کی عوامی پذیرائی کو مثبت پیشرفت سمجھ کر ان کے ساتھ مل کر مشترکہ دشمن کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی راہ نکالنے پر سنجیدگی سے غوروفکر کررہے ہیں۔ ایسے میں پی ٹی ایم کے رہنماؤں کی طرف سے بلوچ وطن کے بارے میں اس طرح کے توسیع پسندانہ خیالات کے اظہار سے مشترکہ دشمن کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی کوششوں اور امکانات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس کا فائدہ براہ راست بلوچ و پشتون اقوام کے مشترکہ دشمن پاکستان، اس کی فوج اور خفیہ اداروں کو ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ کوئٹہ اور بولان کے بارے میں پی ٹی ایم کے رہنما کا بیان قومی، جغرافیائی اور تاریخی حقائق کے برعکس اور غیر حقیقت پسندانہ ہے ۔1883 میں انگریزوں نے کوئٹہ کو خان قلات سے پٹہ lease پر حاصل کیا تھا۔ بولان کا علاقہ بھی انگریزوں نے خان قلات سے لیز پر لیاتھا۔ بعدازاں برٹش بلوچستان کا صدر مقام ہونے اور کوئٹہ چھاونی اور ریلوے لائن کی وجہ سے کوئٹہ انتظامی، اقتصادی، تجارتی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ آج بھی کوئٹہ کی یہ مرکزی حیثیت برقرار ہے جس کی وجہ سے پشتون ، پنجابی کیمپ فالورز اور ہزارہ کوئٹہ میں آکر آباد ہوتے رہے ہیں۔ ایسی آباد کاری اپنے ہی علاقہ پر بلوچوں کے اقتداراعلیٰ کی نفی نہیں کرسکتا جبکہ بولان میں ایک بھی پشتون قبیلہ آباد نہیں ہے۔ بی این ایم اس بات پہ یقین رکھتا ہے کہ آزاد بلوچستان اپنے دوست ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ مل کر دو طرفہ بات چیت، دوستانہ اور پُرامن ذرائع سے دونوں ممالک کے درمیان سرحدوں سے متعلق کسی بھی ابہام اور تنازعہ کو حل کرے گا۔ اس وقت بلوچ اور پشتون قوم دوست قوتوں کو چاہیئے کہ اپنی تمام تر توجہ پاکستانی جبری قبضہ اور پنجابی کی غلامی سے نجات حاصل کرنے پر مرکوز کریں۔