بلوچ فدائین اور قومی آزادی کی راہ
تحریر: شہیک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ایک وقت ایسا بھی تھا، جب محدود علاقائی سوچ و قبائلیت تک محدود بلوچ نوجوان یا تو لیڈروں کے لیئے نعرے لگاتے یا پھر ان کے لیے جھنڈے لگاتے یا ان کے ہاتھوں استعمال ہوتے۔ نوجوان کا تصور بغل بچہ کے طور پر کیا جاتا تھا۔ اس وقت جو باشعور فرزند تھے، وہ اس صورتحال میں شدید پریشاں تھے کہ نوآبادیاتی نظام کے نمائندوں کے ہاتھوں کھلونا بنے ان نوجوانوں میں قومی شعور کیسے اجاگر کیا جاسکتا ہے۔ ایک کامریڈ کے بقول بابا مری ہر سرکل میں جب قومی اجتماعی المیوں کا تذکرہ کرتے تب شدید رنجیدہ ہوکر کہتے کہ اس قوم کی حالت کو بدلنا ہے۔ انہوں نے جن سرکلز کی داغ بیل ڈالی، وہی سوچ و فکر آج کافی توانا درخت بن چکا ہے۔ بی بی سی نے ان کی رحلت پر تجزیہ کیا کہ “کل وہ ایک فرد تھے آج وہ ایک نظریہ بن چکے ہیں۔”
بابا مری نے بلوچ نوجوانوں کو سب سے زیادہ انسپائر کیا اور ان کو جھنڈے و نعرے لگانے کی سیاست سے بالاتر قومی جدوجہد آزادی کے فکر سے لیس کیا۔ مسلح محاذ پر کامریڈ عبدالنبی، استاد واحد قمبر، سگار بلوچ امیر بخش اور جنرل اسلم بلوچ جیسے کرداروں نے نوجوانوں کی تربیت کی جبکہ دوسری جانب سیاسی محاذ پر ڈاکٹر اللہ نذر نے بی ایس او کو روایتی سیاست سے نکال کر اس کے تاریخی حیثیت کو بحال کیا، پھر آگے بشیر زیب نے اس کو برقرار رکھا۔ بلوچ تحریک نے بلوچ نوجوان کو ایک زندہ کردار میں تبدیل کرکے رکھ دیا۔ اب بلوچ نوجوان اس فکر میں غلطاں نظر آئے کہ نوآبادیاتی نظام سے چھٹکارا کیسے پایا جاسکتا ہے۔
ریاستی شدید جبر کے باوجود آج بھی اگر بلوچ تحریک جاری ہے تو یہ بلوچ نوجوان کا عزم ہے۔ حالانکہ شدید نفسیاتی بحران کا سامنا اس وقت تھا جب قبائلی رجحانات حاوی ہو رہے تھے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر حالات اندرونی خانہ جنگی کا پیش خیمہ بنتے جارہے تھے لیکن نوجوانوں کے عزم نے تمام فرسودہ خیالات کو مسترد کرتے ہوئے تحریک کو دوبارہ اس کے ٹریک پر ڈال دیا۔ یہ ہرگز آسان کام نہ تھا۔ استاد اسلم نے نہایت ہی اہم تاریخی کردار ادا کیا انہوں نے بلوچ نوجوانوں کی تمام تر صلاحیتوں کا رخ قبضہ گیر کی جانب موڑنے کے لیئے انتہائی فیصلے لیئے، جس سے تحریک کی ساکھ دوبارہ نہ صرف بحال ہوئی بلکہ تحریک نفسیاتی الجھنوں سے نکل کر ایک نئے فیز میں داخل ہوگئی، جہاں نوجوان مخالفت و نفرت کے بجائے مشترکہ کاوشوں سے تحریک کو منظم کرنے کے لیے سرگرم ہوگئے۔ بلوچ فدائین نے تحریک کو ایک نیا رخ دیا، جہاں وہ ریاست کے لیئے سردرد بن گئے، وہیں وہ اپنے قوم کے لیئے ایک عظیم فکر بھی چھوڑ کر گئے کہ اپنے قومی مقصد کے لیے آخری حد تک جاکر ہی منزل مقصود کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔
بلوچ فدائین کی عظیم قربانیوں سے قوم پرست نظریات اور آجوئی کیلئے قومی جذبات و شعور میں اضافہ ہوگا۔ اس انتہائی فیصلے سے بلوچ قوم کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی دفاع ناقابل تسخیر ہوچکی ہے۔
مزاحمت بابا خیر بخش مری کی سوچ و لائحہ عمل کا حصہ ہے۔ آج یہ جنگ کسی لیڈر یا کسی پارٹی کے لیے نہیں لڑی جارہی نہ ہی اب یہ تین قبیلوں تک محدود ہے بلکہ یہ جنگ اب باشعور بلوچ فرزندوں کی وہ جدوجہد ہے جسے وہ اپنے خون کے آخری قطرے تک جاری رکھنے کے ہنر سے آشنا بن چکے ہیں۔
یہ جدوجہد اب نظریئے کے ماتحت آچکی ہے اور قومی اداریں اب اس جدوجہد کی رہنمائی کررہی ہیں۔ اب بلوچ نوجوان کو گمراہ کرنا ناممکن ہے کیونکہ ان کے سامنے قربانی کی ایسی لازوال داستان ہے، جس سے وہ آنکھیں کسی صورت نہیں پھیر سکتے۔
بلوچ فدائین نے اپنے راستے کا تعین کر لیا ہے، جنرل اسلم کا یہ کاروان بڑھتا رہیگا لیکن ایک سوال یہ ہمیشہ رہیگا کہ ہم نے اس تحریک کو منظم کرنے میں کیا کردار ادا کیا؟ ہم نے اس جدوجہد کو کیا دیا ہے؟ ہمیں بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ ہم تاریخ کے عدالت میں بطور غلام مجرم ہونے کی بجائے آزاد حیثیت سے سرخرو ہوں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔