دی بلوچستان پوسٹ نمائندہ کوئٹہ کے مطابق بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم احتجاجی کیمپ میں بلوچستان میں انسانی حقوق کے پامالیوں کے حوالے سے پریس کانفرنس کی گئی۔
بی ایچ آر او کے وائس چیئرپرسن طیبہ بلوچ نے اس موقعے پر کہا کہ بلوچستان میں پچھلے کئی دہائیوں سے انسانی حقوق کی پامالیاں کی جارہی ہیں۔ لیکن حالیہ کچھ سالوں میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی شدت میں خاصا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ ماورائے عدالت گرفتاریاں، ماورائے عدالت قتل عام، مسخ شدہ لاشوں کی بر آمدگی، عورتوں اور بچوں کی اغوا نماء گرفتاری، سیاسی امور سر انجام دینے پر مکمل پابندی، طالب علموں کے گرد گھیرا تنگ ہونے کے واقعات، لوگوں کے گھروں کو جلانے اور لوٹ مار کے متعدد واقعات ریکارڈ کیئے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں طالب علموں کے ماورائے عدالت گرفتاری اور قتل کے کئی واقعات رونماء ہوچکے ہیں جن میں سینکڑوں بلوچ طالب علموں کو ماورائے عدالت گرفتاری کے بعد ٹارچر سیلوں میں انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ماورائے عدالت قتل کرکے لاشوں کو اجتماعی قبروں میں دفنا دیا گیا یا ویران جگہوں پر پھینک دیا گیا۔ کئی طالب علم سیاسی وابستگی کی بنیاد پر لاپتہ کیئے گئے جبکہ کئی طالب علم صرف اس بنیاد پر لاپتہ ہوئے کہ ان کا تعلق کسی سیاسی گھرانے سے تھا۔ یوں سیاسی وابستگیوں پر طالب علموں کی ماورائے عدالت گرفتاری انسانی حقوق کے قوانین کی بد ترین خلاف ورزی ہے۔
طیبہ بلوچ نے کہا کہ گذشتہ کچھ عرصوں میں طالب علموں کے گرد گھیرا مکمل تنگ کردیا گیا ہے۔ طالب علموں کی ماورائے عدالت گرفتاری میں خاصی شدت لائی گئی ہیں۔ بلوچستان، کراچی، پنجاب اور ملک کے دیگر علاقوں کے یونیورسٹیز اور ہاسٹلز سے کمسن بلوچ طالب علم لاپتہ کیئے گئے یا ان طالب علموں کو ذہنی دباؤ میں مبتلا کرنے کے لئے متعدد اقدامات کئے گئے۔
ماہ مئی کے وسط میں بلوچ طالب علموں کی ماورائے عدالت گرفتاری کی نئی لہر نے بلوچ طالب علموں میں ایک خوف کی فضا کو جنم دیا ہے، پانچ مئی کو سیکورٹی فورسز نے گومازی تمپ کے رہائشی دو طالب علموں واجو عصا اور طلال دوست محمد کو ماورائے عدالت گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جنکی عمریں بالترتیب سولہ و سترہ سال تھی ان کے بارے میں اہلخانہ کو کوئی اطلاع نہیں دی گئی جبکہ عیسیٰ نگری کوئٹہ سے شاپک کے رہائشی نور خان ولد کہور خان کو لاپتہ کردیا گیا۔ کوئٹہ کے علاقے بروری روڈ سے دو طالب علم اشرف نیک اور گلاب کو بھی جبری طور پر لاپتہ کردیا گیا۔ اس کے علاوہ کراچی کے علاقے گلشن اقبال سے ایم فل کے طالب علم ناصر عظیم اور رحمدل بلوچ کو بھی ماورائے عدالت گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔
انہوں نے کہا ریاست کی جانب سے گوادر حملے میں ملوث اسد بلوچ کے آبائی علاقے میناز بلیدہ میں ان کے گھر پر چھاپہ مار کر ان کے تین بھائیوں جن میں ایک اسکول ٹیچر عاطف اور دو کمسن طالب علم عدنان اور کمبر کو ماورائے عدالت گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا اور تفتیش کے بعد انہیں رہا کردیا گیا۔ بائیس مئی کو حب چوکی سے عمران ولد ماسٹر صدیر سکنہ شاپک کیچ کو ہاسٹل سے اٹھا کر لاپتہ کردیا گیا۔ اسی طرح گوادر حملے میں ملوث ایک اور حملہ آور حمل فتح بلوچ کے گھر نودز تربت پر چھاپہ مار کر ان کے والد اور کزن کو اٹھا کر لاپتہ کردیا گیا۔ ان کے کزن نصرت بلوچ کراچی میں زیر تعلیم تھے۔
بی ایچ آر او رہنما نے مزید کہا بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سیکورٹی فورسز کی جانب سے جاری کاروائیاں پوری شدت کے ساتھ جاری ہیں۔ مختلف علاقوں میں فوجی آپریشن، ماورائے عدالت گرفتاری اور قتل کے واقعات نے بلوچستان میں ایک خوف کی فضا کو جنم دیا ہے جس نے ہر طبقہ فکر کو سخت ذہنی دباؤ میں مبتلا کر رکھا ہے۔ سیکورٹی فورسز نے گوادر میں اللہ بخش کے گھر پر چھاپہ مار کر تین خواتین کو ماورائے عدالت گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا جنہیں کچھ دن بعد رہا کر دیا گیا۔ ان خواتین میں بی بی عائشہ، اور اس کی دو بیٹیاں مہتاب اور نائلہ شامل ہیں۔
بلوچستان میں سیاست کو شجر ممنوعہ قرار دیکر اس پر مکمل پابندی عائد کردی گئی سیاسی امور سر انجام دینے کی سزا کے طور پر نوجوانوں بچوں اور خواتین سمیت انسانی حقوق کی پامالیوں کو اجاگر کرنے والے انسانی حقوق رہنماؤں کو بھی انسانی حقوق کی پامالیوں کا شکار بنایا گیا۔
انہوں نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جیسے کہ آپ سب کے علم میں ہے کہ بلوچستان کے طالب علم کئی مصائبوں سے گزر کر اپنی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں بلوچ طالب علموں کو وہ سہولتیں میسر نہیں کہ وہ سکون کے ساتھ اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھ سکیں اور بلوچستان یونیورسٹی جیسا ایک اہم تعلیمی ادارہ سیکورٹی حصار میں تبدیل کرکے نوجوان طالب علموں کو مذید ذہنی دباؤ کا نشانہ بنایا گیا۔پنجاب اور کراچی کے تعلیمی اداروں سے بھی کئی بلوچ طالب علم ماورائے عدالت گرفتار کیئے گئے ۔
آپ صحافیوں کی اخلاقی و پیشہ وارانہ ذمہ داری بنتی ہیں کہ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی بد ترین پامالیوں پر چپ کا روزہ توڑدیں اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر بھرپور آواز اٹھائیں تاکہ بلوچستان میں بسنے والے ہر طبقہ فکر کے لوگوں میں جو خوف کی فضاء قائم کی گئی ہیں اس کا خاتمہ ہو اور بلوچ طالب علم جو مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہے بغیر کسی خوف و دباؤ کے اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھ سکیں۔