بی ایچ آر او اور وی بی ایم پی مئی کی پندرہ تاریخ کو کوئٹہ پریس کلب کے سامنے عطا نواز بلوچ اور دیگر بلوچ لاپتہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرہ کریں گی۔
دی بلوچستان پوسٹ نمائندہ کوئٹہ کے مطابق بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم کیمپ میں ایک پریس کانفرنس کی گئی۔ پریس کانفرنس میں بی ایچ آر او کے وائس چیئرپرسن طیبہ بلوچ نے کہا کہ انسانی حقوق کی پامالیوں نے بلوچستان میں نظام زندگی کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ بلوچستان کے عوام تعلیم، صحت اور ضروریات زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم کمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور دوسری طرف مسلسل فوجی آپریشن اور اس فوجی آپریشن کے نتیجے میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگی، نقل مکانی، لوگوں کے املاک جلانے اور لوٹ مار کے متعدد واقعات ریکارڈ پرچکے ہیں جس کی وجہ سے بلوچستان کا ہر طبقہ شدید متاثر ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماہ اپریل 2019 کے مہینے میں سیکورٹی فورسز نے 78 افراد کو بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ماورائے عدالت گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جن میں تمپ کے علاقے سے تعلق رکھنے والے تین افراد بھی شامل ہیں جن کی شناخت نہیں ہوسکی ہیں ۔ ان میں سے پچیس افراد کو رہا کردیا گیا ہے جبکہ 53 افراد کا تاحال کچھ پتہ نہیں جبکہ بلوچستان بھر میں مختلف واقعات میں مختلف علاقوں سے 38 افراد مارے گئے۔ جن میں بارہ اپریل کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی میں بم دھماکے کے چھبیس افراد بھی شامل ہیں اس کے علاوہ چار نا معلوم افراد کی لاشیں بر آمد ہوئی ہیں جبکہ بائیس اپریل کو سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے حضور جٹ کی لاش پچیس اپریل کو بر آمد ہوئی، یکم اپریل 2018 کو تمپ میں سیکورٹی فورسز نے کاروائی کرتے ہوئے نو افراد کو لاپتہ کردیا جن میں سات افراد کو رہا کردیا گیا جبکہ دو افراد رفیق ولد احمد اور امیر بخش ولد زباد تاحال لاپتہ ہیں۔
طیبہ بلوچ نے تفصیلات بتاتے ہوئے مزید کہا کہ پانچ سے آٹھ اپریل کو بلوچستان کے مختلف علاقوں میں فوجی آپریشن اور چھاپہ مار کاروائی کرکے چودہ افراد کو ماورائے عدالت گرفتار کرلیا گیا جن میں صرف ایک افراد کو رہا کردیا گیا باقی تیرہ افراد ابھی تک لاپتہ ہیں۔ لاپتہ ہونے والوں میں چودہ سالہ سمیر ولد نصر اللہ بھی شامل ہیں۔ نو اپریل کو تمپ اور تربت سے دس افراد کو لاپتہ کردیا گیا جبکہ نو افراد کو رہا کردیا گیا۔ دس اپریل سے لیکر اکیس اپریل تک جبری گمشدگی میں اضافہ کرکے حب اور کراچی سے ایک ہی خاندان کے آٹھ افراد ماورائے عدالت گرفتار ہوئے جبکہ بلوچستان کے دیگر علاقوں سے مزید سات افراد کو لاپتہ کردیا گیا جن کا تاحال کچھ پتہ نہیں۔ اکیس اپریل کو آواران کے علاقے زیلگ میں سیکورٹی فورسز نے آپریشن کرکے بزرگ عبدالحئی کو بچوں اور خواتین سمیت اٹھا کر لاپتہ کردیا گیا جنہیں تین دن تک حراستی کیمپ میں رکھنے کے بعد رہا کردیا گیا اور تئیس سے پچیس اپریل کو مکران کے علاقوں مشکے، دشت اور تربت سے طالب علم سمیت دس افراد ماورائے عدالت گرفتار ہوئے جن کے بارے میں تاحال کسی قسم کی اطلاع نہیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ تیس اپریل کو سیکورٹی فورسز نے نصیر آباد کے علاقے ربی میں شئے حق بگٹی کے گھر پر چھاپہ مار کر گھر میں موجود چار خواتین اور پانچ بچوں سمیت نو افراد کو ماورائے عدالت گرفتار کرلیا جن کی شناخت دھنڈوز بگٹی، شوزان بگٹی، بجاری بگٹی اور زرگل بگٹی جبکہ کم سن آمنہ سمیت دیگر چار بچوں جن میں جمیل بگٹی، پاتی بگٹی ، بٹّے خان اور نور بانک کو لاپتہ کرکے نصیر آباد آرمی کیمپ منتقل کردیا گیا جبکہ تمپ کے علاقے سے تین افراد کو لاپتہ کیا گیا جن کے ناموں کی شناخت نہیں ہوسکی۔
بی ایچ آر او وائس چیئرپرسن نے کہا بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی شدت میں خاصا اضافہ انسانی حقوق کے بنیادی اغراض و مقاصد کے سنگین ترین خلاف ورزی ہے اور اس سنگین خلاف ورزی نے صورتحال کو ایک گھمبیر شکل میں تبدیل کردیا ہے جس کی وجہ سے بلوچستان ایک میدان جنگ کی صورتحال اختیار کرچکا ہے۔ ایک طرف فوجی آپریشن، ماورائے عدالت گرفتاری اور قتل کے واقعات نے لوگوں میں ایک خوف کی فضا کو جنم دیا ہے اور دوسری جانب ریاست عوام کو انصاف فراہم کرنے میں مکمل ناکامی کا شکار ہورہی ہے اور ریاست اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے کے بجائے غلط اعداد و شمار پیش کرکے یا مختلف تاویلیں پیش کرکے خود کو بری الزمہ قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں جس کی وجہ سے بلوچستان میں طاقت کے استعمال کا کھیل اپنے عروج کو پہنچ چکا ہے۔
انہوں نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ صحافت کے مقدس پیشے سے منسلک پیشہ وار صحافی بھی بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر اپنی ذمہ داریوں میں کوتاہی کا مرتکب ہو کر اس صورتحال میں خاموش ہیں جس کی مذمت کرتے ہیں۔ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں دراصل بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین سمیت پاکستانی آئین کی بھی خلاف ورزی ہے جس کا مرتکب ملکی سیکورٹی ادارے ہورہے ہیں جبکہ پارلیمنٹ سمیت سپریم کورٹ جیسا اعلیٰ ادارہ بھی چھپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ صحافی، سیاسی اور سماجی کارکنان سمیت مختلف طبقہ کے افراد کو چاہیئے کہ وہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی روک تھام کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کریں تاکہ عوام اکیسویں صدی میں کمپرسی کی زندگی سے چھٹکارہ ہاسکیں۔
انہوں نے کہا بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن اس پریس کانفرنس کی توسط سے آپ سمیت تمام طبقہ فکر کو گوش گزار کرنا چاہتی ہیں کہ تنظیم کے انفارمیشن سیکرٹری عطا نواز بلوچ کی ماورائے عدالت گرفتاری کو پندرہ مہینے کا طویل عرصہ گزر چکا ہے لیکن ان کی زندگی کے حوالے کسی قسم کی کوئی اطلاع نہیں کہ وہ کس حال میں ہے۔ عطا نواز بلوچ انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن تھے جو بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو اجاگر کرنے میں پیش پیش تھے جنہیں اٹھائیس اکتوبر دو ہزار سترہ کو کراچی کے علاقے سے اٹھا کر لاپتہ کیا گیا۔
بی ایچ آر او اور وی بی ایم پی مئی کی پندرہ تاریخ کو کوئٹہ پریس کلب کے سامنے عطا نواز بلوچ اور دیگر بلوچ لاپتہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرہ کریں گی تاکہ عطا نواز سمیت دیگر لاپتہ افراد کے کیس کو پاکستان سمیت بیرونی ملکوں میں اجاگر کرسکیں۔
انہوں نے کہا ہم تمام انسانی حقوق کے کارکنوں سمیت مختلف طبقہ فکر کے لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے اپنا کردار کریں اور اس پر امن احتجاجی مظاہرے میں شریک ہو کر انسانیت کے تحفظ کے لئے حکومتی اداروں کو خواب غفلت سے جگانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔