بلوچستان: تعلیمی بجٹ میں کٹوتیوں کے خلاف کیسے لڑا جائے؟ – خالد مندوخیل

192

بلوچستان: تعلیمی بجٹ میں کٹوتیوں کے خلاف کیسے لڑا جائے؟

تحریر: خالد مندوخیل

دی بلوچستان پوسٹ

ملکی معیشت کے شدید بحران کے نتیجے میں شعبہ تعلیم کے بحران نے تعلیمی اداروں کے اندر ایک زبردست بحث کا آغاز کردیا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں طلباء و طالبات حالیہ تعلیمی بجٹ میں کٹوتیوں، سکالرشپس کے خاتمے، مسلسل بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور فیسوں میں دگنے اضافے کے خلاف غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں۔ تعلیمی بجٹ میں کٹوتی کے طلبہ کی بڑی اکثریت پر دور رس اثرات مرتب ہونگے اور یہ تفصیلات انتہائی تشویشناک ہیں۔

پچھلے مہینے 19 اپریل کو ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے ایک خاص میٹنگ کا انعقاد ہوا، جس میں ملک بھر کے تعلیمی اداروں سے نمائندے بلائے گئے تھے تاکہ شعبہ تعلیم کو حالیہ درپیش بحران کے اثرات کا جائزہ لیا جا سکے اور تعلیمی بجٹ میں کٹوتی کے باعث رد عمل کا راستہ روکنے کیلئے ممکن پالیسیوں پر غور کیا جا سکے۔

میٹنگ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ مالی سال 2019-20 کیلئے ایچ ای سی کو تعلیمی بجٹ 103.55 ارپ روپے کی ضرورت ہے جبکہ شعبہ تعلیم کیلئے ترقیاتی بجٹ کی مد میں 55 ارب روپے درکار ہونگے لیکن دوسری طرف انہوں نے اسی سال 50 فیصد غیر متوقع بجٹ کٹوتی کا خدشہ ظاہر کیا۔ یعنی وفاقی حکومت کی طرف سے صرف 58 ارب روپے دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ مالی سال 2018-19 میں درکار 91.9 ارب روپے میں سے صرف 65 ارب روپے دیئے گئے تھے اور اسی سال GDP کے صرف اور صرف 0.26 فیصد تعلیم کیلئے مختص کئے گئے تھے۔ 2019-20 کیلئے کل ملا کر 45 فیصد کٹوتی متوقع ہے۔ اس کے تیجے میں HEC نے مندرجہ ذیل خطرناک اقدامات کا فیصلہ کیا ہے:
1۔نئی سکالرشپس پر میمورینڈم جس سے ملک بھر میں تقریباً 21000 طلباء و طالبات متاثر ہونگے۔
2۔ ٹیوشن فیس کو دگنا کیا جائے گا۔
3۔ نئے داخلوں کو کم سے کم کیا جائے گا۔
4۔ نئی یونیورسٹیوں اور کیمپسوں کی تعمیر کو بند کر دیا جائیگا۔
5۔ یونیورسٹیوں میں نئی ملازمتیں دینے پر پابندی لگادی جائے گی۔
6۔ ریسرچ کیلئے دیئے جانے والے فنڈ کو ختم کر دیا جائیگا۔
7۔ ورلڈ بینک اور برٹش کونسل کیساتھ مشترکہ فنڈ سے دیئے جانے والے غیر ملکی سکالرشپس پر نظرثانی کی جائے گی۔

اسکے علاوہ 2013 میں وزیراعظم کی طرف سے فی ری امبرسمنٹ سکیم (fee reimbursement scheme)کا آغاز ہوا تھا جس سے صرف 2013-15 کے دوران ملک بھر کے تقریبا 152798 طلبہ مستفید ہوئے تھے، جن میں سے 28468 طلبہ بلوچستان سے شامل تھے۔ لیکن اب اس سکیم کو بھی نئی حکومت نے بند کردیا ہے۔ جس سے ہزاروں طلبہ متاثر ہوئے ہیں۔ ان طلبہ کو اچانک نوٹس مل رہے ہیں کہ مخصوص وقت تک اپنی فیسیں جمع کرادیں بصورت دیگر وہ اپنے تعلیمی کیرئیر کو جاری نہیں رکھ سکتے۔

اس سب صورتحال کے اندر بلوچستان کے تعلیمی اداروں اور طلبہ پر خطرناک اثر پڑیگا۔ بلوچستان یونیورسٹی اس وقت 80 ارب روپے خسارے میں جا چکی ہے۔ اس خسارے کے سامنے موجودہ وائس چانسلر کے اوسان خطا ہیں اور وہ وزیر اعظم پاکستان(جس کی حالت وی سی صاحب سے بھی بد تر ہے) سے ڈیڑھ ارب روپے کے فوری بیل آوٹ پیکیج کا مطالبہ کررہا ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو سکا تو وہ مئی کے بعد ملازمین کی تنخواہیں ادا نہیں کریگا۔ یہاں بھی سارا بوجھ اور ملبہ ملازمین اور طلبہ پر ڈالا جا رہا ہے جبکہ اس خسارے کی اصل وجہ انتظامیہ کی بے تحاشہ کرپشن اور تعلیمی بجٹ میں مسلسل کمی ہے۔

مالی سال 2018-19 میں بلوچستان یونیورسٹی کو اپنے اخراجات کیلئے درکار ساڑھے چار ارب روپے میں سے ساڑھے دو ارب روپے کے لگ بھگ دیئے گئے تھے۔ جبکہ 2019-20 کیلئے جہاں ایک طرف اخراجات بڑھیں گے تو وہیں دوسری طرف HEC کی طرف سے گرانٹوں میں کمی آئیگی۔ جس کے نتیجے میں ایک خطرناک صورتحال بننے کی طرف جائیگی اور طلبہ کی بڑی اکثریت جو پہلے ہی سے کسمپرسی کی حالت میں اپنے تعلیمی عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں، اور بھی محروم ہوجائیں گے۔

ان تمام تر حقائق سے ملکی معیشت کو لاحق کینسر کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ملکی معشیت کی مثال اس وقت ایک بیمار جاندار کی ہے جس کو کچھ سرمایہ دار اور حکمران پیراسائٹس کی طرح چوس رہے ہیں اور غریب عوام اور طلبہ مسلسل مہنگائی اور غربت کی گہرائی میں دھکیلے جارہے ہیں۔

لیکن آج محنت کشوں، طلبہ اور نوجوانوں کے اندر برداشت کرنے کی گنجائش بھی ختم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ آہستہ آہستہ اپنے مسائل کا ادراک حاصل کرتے ہوئے نوجوان، طلبہ اور مزدور سڑکوں پر نکل کر اور احتجاجوں کا رخ کر کے اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

ملک بھر میں اس وقت طلبہ، انجینئر، ڈاکٹر، نرسز، پیرامیڈکس غرض یہ کہ زندگی کے ہر شعبہ ہائے سے تعلق رکھنے والے محنت کش عوام جگہ جگہ احتجاجوں پر نکل پڑے ہیں اور اپنے مطالبات کے گرد جدوجہد کررہے ہیں۔

یہاں ایک بات کی وضاحت کرنا لازمی ہے کہ ا گرچہ بہت سارے اسباق ہم عمل سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھیں گے لیکن چند چیزوں کو فوری طور پر سمجھنا ضروری ہے کہ موجودہ مسائل چاہے وہ تعلیمی مہنگائی اور بجٹ میں کٹوتی ہو، چاہے وہ نجکاری کا مسئلہ ہو یا مہنگائی اور بے روزگاری کا ان سب کی جڑ اور بنیاد آج اس سرمایہ دارانہ نظام کا زوال ہے۔ امیر اور غریب کی طبقاتی تقسیم پر مبنی یہ نظام اور اس کے محافظ حکمران عوام کو بنیادی ضروریات اور سہولیات دینے میں مکمل ناکام ہیں۔ لیکن ہاں ان کے پاس اب بھی ایک راستہ ہے کہ وہ اپنی عیاشیوں، لوٹ مار اور استحصال کو قربان کرکے اور اپنی مراعات کو ختم کرکے عوام کے مسائل کو حل کر سکیں لیکن حکمران پاگل نہیں ہیں کہ وہ اپنی مرضی اور خوشی سے اپنی آسائشوں کو عوام کیلئے چھوڑ دینگے۔ یہ ان کیلئے زندگی اور موت کی لڑائی ہے لہٰذا اب اپنے حقوق کو ہم صرف اور صرف مسلسل جدوجہد اور تحریکوں کے ذریعے ہی چھین سکتے ہیں۔

اس لئے اگر مسئلہ کی بنیاد ایک ہی نظام اور حکمران طبقہ ہے تو پھر اس کے خلاف الگ الگ جدوجہد کرکے کچھ زیادہ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اب احتجاج اور جدوجہد بھی ملکر ہی کرنی ہوگی۔ اسکے ساتھ ایک اور بات کی نشاندہی ضروری ہے کہ جب لوگ پہلی بار حالات کے جبر سے تنگ آکر نکلتے ہیں تو وہ نسبتاً آسان نظر آنے والے، جانے پہچانے، آزمودہ اور پرانے نسخوں، قیادتوں اور تنظیموں کا رخ کرتے ہیں اور انہیں اپنے مسائل کے حل کیلئے کسی شارٹ کٹ کی تلاش ہوتی ہے۔ لیکن عمل کے اندر یہ سارے نسخے آزما کر ہی لوگ مستقل حل کی تلاش کرینگے تب وہ ایسی قیادت کو تراش لیتے ہیں جو انہیں اپنی منزل تک جرات اور ایمانداری کیساتھ لیکر آگے بڑھے اور اس ظالم سرمایہ دارانہ نظام کیخلاف ایک مستقل اور مسلسل لڑائی لڑتے ہوئے ایک انقلاب برپا کرے جو ہمیشہ کیلئے، غربت، بے روزگاری، محرومی، ذلت، طبقاتی تقسیم اور قومی و جنسی جبر کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کیا جا سکے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔