ایک مظبوط حوصلے کا نام زبیر جان
تحریر۔ گزین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کُچھ ایسے انسان ہوتے ہیں کہ اپنے ذات سے نکل کر پورے قوم کا مُستقبل اور پہچاں ہوتے ہیں، جب میں چھوٹا تھا تو سکول جاکر پڑھائی کرتا تھا، سکول میں بُہت سےدوست تھے، ان تمام دوستوں میں سے ایک میرا عظیم دوست تھا، جس کا نام زبیر جان تھا، میں ہر صُبح سکول جایا کرتا تھا، پھر ہم تفریح کیلئے بازار یا کجھور کے باغات میں چکر کے لیئے جایا کرتے تھے۔
ایک دن شہید زُبیر جان نے مُجھے ہاتھ سے پکڑ کر اپنے ساتھ آنے کو کہا، میں نے ان سے سوال کیا؟ کہاں مُجھے لے جارہے ہو، تو ہنس ہنس کر بولا میرے برادر میرے کمرے میں آؤ مُجھے آپ سے کُچھ کام ہے، میں نے پھر سوال کیا یار کیا کام ہے؟ یہیں مُجھے بولو میں نہیں آؤنگا، پھر بولا بھائی پلیز ایسا مت کرو صرف مُجھے آدھے گنٹھے کا وقت دےدو، بُہت ضروری کام ہے، تو میں نے کہا ٹھیک ہے، چلو جب کمرے میں داخل ہو کر بیٹھ گئے تو مُجھے کہا بھائی میرا کام یہ ہے کہ میں BSO Azad کا ایک مِمبر ہوں، تو میں نے کہا BSO Azad کیا ہے؟ ہنس کر (بلوچی میں بولا ہؤ اڑے غلامی ترا لعنت انت) تو میں نے کہا کیوں بھائی جان اسطرح بولا؟ بعد میں اس نے کہا BSO azad بلوچ اور بلوچستان کی َآزادی کے لیئے جدوجِہد کررہا ہے اور میرا عرض یہ ہے کہ میں اور آپ بلوچ ہیں، میرا مادر وطن بلوچستان ہے اور بلوچستان پر 27 مارچ 1948 کو غیر فطری ریاست پاکستان نے بزور طاقت قبضہ کیا، نا اس سے بلوچ پہلے خوش تھے اور نہ ابھی خوش ہیں لیکن بلوچستان کے قبضہ کے خلاف اسی دن سے آغا عبدالکریم کریم خان نے اپنے چند ساتیھوں سمیت باقاعدہ مُزاحمت کا اعلان کیا، جو آج بھی جاری ہے۔
آج جو میں آپکودعوت دے رہا ہوں، یہ وہی جنگ ہے، شہیدوں نے جسکا آغاز کیا، جو اپنا سب کُچھ قربان کرکے اس دُنیا سے رُخصت ہوگئے۔
قرآن کریم میں اللہ پاک فرماتا ہے کہ شہید کبھی نہیں مرتے ہیں، شہید ہمیشہ زندہ رہتے ہیں، میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اب وطن کے نوجوان، میں اور آپ ہیں۔ ہمیں اس ناپاک دُشمن سے لڑنا ہوگا اور اپنے وطن کو دُشمن کے پنجوں سے آزاد کرنا ہوگا، آؤ عہد کریں اُن شہیدوں کے فکر و فلسفے کو آگے لیجا کر اپنے پوری قوم کو ایک اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لیجائیں۔
میں نے سوال کیا وہ تو ٹھیک ہے لیکن میرے خیال میں بلوچ قوم کے پاس اتنا جنگی ساز سامان نہیں ہے کہ وہ ایک powerful مُلک سے جنگ لڑیں تو یہ کیسے ہوگا؟ جواب میں وہ ہنس کر بولا، واقعی بلوچ کے ساتھ اتنا جنگی ساز سامان نہیں ہے لیکن ہمت اور حوصلہ بے شُمار ہے۔ بلوچی میں ایک بتل ہے کہ ہمتءِ مرداں مدّتءِ خُدا تو پھر میں نے کہا واقعی زُبیر جان کیسی بات کردی آپ نے، وہ بولا ہر بلوچ نوجوانوں کو ایسا ہی کرنا ہوگا اور لڑنا ہوگا۔
زبیر جان اپنے پرجوش جوانی کے ساتھ سال 2012ء کو وطن کی آزادی کے خاطر بلوچ مزاحمتی تنظیم میں شامل ہوئے، اپنے وطن کا قرض ادا کرکے بلوچستان کے ضلع واشُک کے علاقہ راغے میں سال 2015ء کو اپنے 7سات ساتھیوں سمیت دشمن سے بہت دلیری سے مقابلہ کرکے شہادت کا رُتبہ حاصل کیا اور ہمیشہ کےلئے امر ہوگئے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔