آزادی صحافت کا معیار !
“پاکستانی صحافی و بلوچ مسئلہ”
تحریر:عبدالواجد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
انقلاب فرانس سے قبل والٹیر کے عہد میں اہل قلم نے کلیسا کے مذہبی تعصبات اور ریاستی استبدادکے خلاف قلم کے ذریعے موثر مزاحمت کر کے یورپی معاشروں کو مذہبی و سیاسی آزادیاں دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔
نپولین نے کہا تھا کہ ’’اگر بوربون خاندان آلات تحریر کو کنٹرول کر لیتا تو اگلے سو سال تک اس کی حکومت قائم رہتی‘‘
آزادی جو دراصل ایک تخیل اور رجحان کانام ہے کی پہلی شرط اس کی پابندی ہے چار ہزار سال کے تجربات کے بعد،انسان نے آزادی کو ریاست کی صورت میں منظم کیا اگر ریاست منتشر ہوئی تو آزادی غائب ہو جائے گی تاہم آزادیِ صحافت کا فلسفہ اب بھی غیر واضح اور ایسا پیچیدہ تخیّل ہے ۔
دنیا بھر کی صحافتی دانش جس کی حدود و قیود کا تعین نہیں کر سکی البتہ مغربی سماج نے طویل کشمکش کے بعد 1791ء میں امریکی آئین میں پہلی ترمیم کے ذریعے سینسرشپ کے بغیر اپنی رائے کو چھاپنے اور سرکولیٹ کرنے کا حق پایا۔
دنیا میں آزادی صحافت کے لیے دی گئی قربانیوں کو ذہن نشین کرکے اور اس کا موازنہ پاکستان میں رائج صحافت کے اصولوں، آزادی صحافت کی اہمیت ، صحافی بننے کے معیار اور صحافت کی آزادی کی اصل روح کے ساتھ کیا جائے تو آپ ایک دلچسپ صورتحال کا مشاہدہ کر سکیں گے۔
جب سے ہوش سنبھالا “بلوچ کے حقیقی مسئلے کو جانا ، نظریاتی و فکری شعور کی دہلیز پر جب سے پاؤں رکھا تو پاکستان میں موجود میڈیا اور صحافت کے معیار کو دیکھ کر مجھ پہ ہمیشہ عجیب سی کیفیت طاری ہوئی، کیونکہ پاکستانی میڈیا کی آزادی اور آزادیِ صحافت کا معیار صرف یہی تک ہے کہ ملک کے وزیر اعظم کا Duplicate بنا کر ان پر مسخرے بازی کرکے میڈیا کی آزادی اور صحافتی آزادی کے اصولوں پر اترا جاسکتا ہے! چونکہ بلوچستان و بلوچ کا مسئلہ پاکستان کے ساتھ ستّر سالہ پُرانا ہے ،بلوچ قوم ستّر سال سے زائد عرصے سے پاکستان کے ساتھ اپنے ملک پر قبضہ گیریت سے نجات کی جنگ لڑ رہے ہیں، بلوچستان اور پاکستان کے ساتھ ایک جنگ جاری ہے اور بلوچ قوم “اقوام متحدہ” کے مروجہ اصولوں کے تحت اپنا جنگ لڑرہے ہیں،پاکستان میں میڈیا تو کبھی بھی نا آزاد تھا اور نہ ہی رہیگا لیکن بلوچ مسئلے کو لیکر پاکستان کے صحافی حضرات صحافتی اصولوں اور آزادی صحافت کو بھول کر پاکستانیت ان کے اندر جھاگ جاتی ہے میڈیا کتنا بھی آزاد ہو لیکن ان کے ذہن میں بس یہی ہے کہ “بلوچ” جاہل ہیں ،جنگجو ہیں، دہشت گرد ہیں اور پاکستان کو توڑنے پر تُلے ہوئے ہیں، اُن کی پاکستانیت کا معیار اتنی شدت اختیار کرجاتا ہے ایک لمحہ وہ بھول جاتے ہیں کہ آزادیِ صحافت نام کا کوئی چیز وجود رکھتا ہے، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ میڈیا کی آزادی کے کچھ معیار ہیں۔
رواں ہفتہ جرمنی کے شہر “بون” میں موجود جرمن میڈیا گروپ “ڈی ڈبلیو” DW کے زیر انتظام ہر سال “گلوبل میڈیا فورم، میڈیا کے اعتبار سے جڑی آزادی صحافت” کے عنوان سے ایک قوی پروگرام منعقد کی جاتی ہے اور اس پروگرام میں دنیا بھر کے میڈیا گروپس صحافی حضرات کو مدعو کیا جاتا ہے اور دنیا میں درپیش صحافتی آزادی اور میڈیا کو درپیش چیلنجز پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔
ڈی ڈبلیو کے زیرانتظام عالمی میڈیا کانفرنس میں میڈیا کے اعتبار اور اس سے جڑی آزادی اظہار صحافت سے متعلق چینلنجز پر ایشیائی صحافی حضرات بھی تذکرہ و تبصرے کرتے ہیں، بدقسمتی سے یہ وہ فورم ہے جس میں ڈی ڈبلیو شعبہِ اردو سے منسلک جتنے بھی صحافی حضرات ہیں ان کا تعلق برائے راست پاکستان سے ہے اور وہ محب وطن پاکستانی ہیں اس لئے راقم کو یہ واسطہ پڑا تھا جب جرمنی میں بلوچ مسئلے پر جتنے بھی پروگرامز ہوئیں، اور ہورہے ہیں ان سے رابطہ کرنے کے باوجود نا ڈبلیو شعبہ اردو نے کوریج دی اور نا ہی بلوچ مسئلے کو کور کرنے کے لئے اپنی صحافتی ذمہ داریاں نبھائیں ،گو کہ بعض اوقات DW شعبہِ اردو سے منسلک پاکستانی نژاد جرمن صحافی و شاعر جناب عاطف توقیر پاکستانی لُبادہ اوڑھ کر بلوچ مسئلے کو پاکستان میں اقلیت کے حقوق سے جوڑ کر اس پر کبھی کبھار تبصرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستانی صحافی حضرات پر جب بلوچ مسئلے پر پاکستانیت کا بھوت طاری ہوجاتا ہے تو وہ اس معیار کو بھول جاتے ہیں کہ DW جیسا ادارہ ایک آزاد میڈیا گروپ ہے! اہمیت کے حامل امر یہ ہے کہ اس بڑے گلوبل میڈیا فورم میں پاکستان کے وہ تمام صحافی موجود ہوتے ہیں جو جانتے بھی ہیں کہ “بلوچ” کا پاکستان کے ساتھ تعلق کیا ہے، اور اس کے علاوہ خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ اس بڑے ایونٹ میں دنیا بھر سے صحافی اور میڈیا گروپس آتے ہیں جنہیں صحافتی آزادی اور میڈیا کے معیار کا بخوبی اندازہ ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس بڑے عالمی ایونٹس میں بلوچ کی غیر موجودگی ایک سوالیہ نشان ہے! ہم بات کرتے ہیں عالمی سفارت کاری کی لیکن ہمارے سیاسی دوست ایک لمحہ کے لئے بھول جاتے ہیں کہ سیاسی سفارت کاری کے لئے دنیا کے طاقتور حکمران و ملکوں کے علاوہ وہاں موجود آزاد صحافیوں اور میڈیا گروپس سے تعلقات بنانا بھی اہمیت رکھتا ہے اور یہ وہ ایونٹس ہیں جہاں ہم اس تشنگی کو ایک حد تک ختم کرسکتے ہیں یہ خوش قسمتی کی بات ہے کہ DW کے اس پروگرام میں “Baloch Voice Association “کا داخلہ ہے اور وہ اس پروگرام کے دوران اگر چاہے تو وہ کمی پورا کرسکتا ہے جس سے بلوچ سیاسی قوتوں کی آواز انٹرنیشنل میڈیا کی زینت بن سکتا ہے کیونکہ بلوچستان مختلف قصے و کہانیوں سے بھرا پڑا ہے جس کی تلاش آزاد میڈیا کو ہے لیکن شومئی قسمت آپسی چپقلش اور ایک دوسرے کی عدم برداشت سے ہمارے سیاسی دوست ایسے لمحوں کو نظر انداز کرتے ہیں اور بلوچ وائس ایسوسی ایشن کے دوست بھی ایک لمحہ اپنا انا کندے پر رکھ کر صرف فوٹو سیشن تک محدود رہتے ہیں.
پاکستانی صحافت اور میڈیا گروپس کے کردار اور کام سے ہم کم از کم اچھی طرح سے واقف ہیں لیکن ایسا موقع اور وہ بھی مغرب کے آزاد سماج پر مکمل ہوم ورک کے ساتھ ہمارے سیاسی پارٹیوں کے میڈیا ونگ منیر مینگل کے ساتھ مل کر ایسے ایونٹس میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں اور دنیا میں موجود انٹرنیشنل صحافیوں سے اس پروگرام کے توسط سے ایک رشتہ قائم کرسکتے ہیں کیونکہ یہ لمحے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور ان کی اہمیت کا اندازہ ہمیں آنے والے وقت میں ہوگا.
آخر میں اس امید کے ساتھ کہ بلوچ انقلابی دوستوں کے جتنے بھی میڈیا گروپس ہیں وہ اپنے آپ کو اُس محدود خول سے نکال کر انا و ضد، پسند و نا پسند جیسے رویوں کو ترک کرکے صحافتی ذمہ داریوں سمیت میڈیا کی آزادی کے اہمیت کو ملحوظ خاطر رکھ کر اپنی ذمہ داری ادا کریں گے نا کہ محدود ہوکر صرف پاکستانی نفسیات میں مبتلا ہو کر اسی طرح کام کرتے رہیں گے جس طرح آجکل کچھ بلوچ میڈیا گروپس کام کررہے ہیں کیونکہ مستقبل میں ایک آزاد و خودمختار بلوچستان میں آزاد میڈیا کا داغ بیل آپ لوگوں نے ہی ڈالنا ہے.
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔