آخری گولی اور آخری سانس کا فلسفہ
میار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
۲۳ نومبر ۲۰۱۸ کی صبح سنگت جلال بلوچ دوستوں کو رخصت آف اوارن کہہ کر ڈاڈ عرف سنگت اضل اور سنگت وسیم کے ہمراہ دشمن پر پہاڑ بن کر گرے اور پاکستان و چین سمیت تمام بلوچ دشمن قوتوں کو یہ پیغام دیا کہ ہم اپنے سرزمین پر کسی بھی بیرونی طاقت و قبضہ گیر کو برداشت نہیں کرینگے اور ہماری جدوجہد بلوچستان کی مکمل آزادی تک جاری رہے گی۔
اس فدائی حملے کی اطلاع جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور پاکستانی میڈیا چاہ کر بھی اس حملے کی خبر چھپا نہ سکی اور کچھ ہی لمحوں میں دنیا کے سامنے بی ایل اے کا موقف آیا، جس سے چین سمیت پاکستان کو یہ احساس ہوا کہ بلوچ نوجوان جنہیں ہم اپنے سوچ کے مطابق کب کا ختم کرچکے تھے، اب تک زندہ ہیں اور نہ صرف زندہ ہیں بلکہ لڑ کر مرنا بھی جانتے ہیں۔
دوستوں سے اکثر اس بہادری اور ایمانداری و قربانی کے جذبے کے بابت پوچھتا رہتا تھا اور ۲۳ نومبر کو بھی ایسا ہی کچھ ایک سینئر ساتھی سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ “یہ دوست تو نظریاتی تھے لیکن اگر جنرل اسلم کسی بزدل کا ہاتھ پکڑ لیں اور اسکی تربیت کریں تو وہ شخص کچھ ہی دنوں میں اس قدر تیار ہوسکتا ہے کہ فدائی حملوں سے بھی اجتناب نہ کرے”۔
گذشتہ دنوں ھکل جو بی ایل اے کا آفیشل میڈیا چینل ہے کی جانب سے ایک ویڈیو شائع کیا گیا، جس میں جنرل اسلم بلوچ سنگت بلال بلوچ، سنگت وسیم اور سنگت فرید بلوچ کی گفتگو سنائی دے رہی ہے۔ یہ ریکارڈنگ اسی حملے کی تھی جس میں بلوچ سرمچاروں نے پاکستان و چین کو انکی حیثیت بتانے کے ساتھ ساتھ بلوچ قومی مزاحمت کی اصل شکل واضح کی تھی۔
اس پندرہ منٹ کے کلپ کو سن کر اُستاد کے صلاحیتوں اور دوستوں کی بہادری کو علم، شعور، سیاست، مذہب، فلسفہ، عشق، جنون اور سائنسی کسی بھی طرح سے ناپ نہیں سکتے۔ ہم اکثر ایک ادنیٰ سا عمل کرکے پورے تحریک کو اپنا میراث سمجھ کر من مستیاں کررہے ہوتے ہیں۔
کبھی چی گیویرا، کبھی لینن، کبھی فینن، کبھی مارکس، کبھی بھگت سنگھ، کبھی چندر شیکھر آزاد کی مثالیں دیکر یہ سمجھتے ہیں کہ میرا انقلابی فریضہ پورا ہوگیا جبکہ دوسری جانب درویش، ریحان، رازق، ازل، وسیم، بابر، اپنے آپ میں ایک تحریک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قربانیوں کے جذبوں سے سرشار آزادی کے پروانے قربان ہونے سے قبل بھی بغیر کسی ڈر و خوف کے اپنے قوم کو بس اتنا ہی کہتے ہیں دشمن کو کبھی بھی اپنی سرزمین پر آرام و چین سے رہنے نہیں دینا ہے، انکے خلاف اپنی جدوجہد جاری و ساری رکھنی ہے۔
میں اکثر اس سوچ اور اس کیفیت کو لکھنے کی کوشش کرتا تھا اور آج بھی بس کوشش ہی کر پارہا ہوں کیونکہ یہ کیفیت، یہ عمل، یہ کردار نہ تو کبھی لکھا گیا ہے نہ ہی پڑھا یا سنا گیا ہے۔ کیونکہ یہ عمل صرف وہی وطن زادے کرسکتے ہیں، جنہیں وطن اپنے آپ اپنے گھر، خاندان، دوستوں اور اپنے خواہشات سے زیادہ عزیز ہو اور وہ وطن پر اپنی جوانی قربان کرکے قومی آزادی کی شمع کو ہمیشہ کے لیئے روشن کردیں۔
شہادت سے کچھ لمحات قبل جب شہید رازق اور شہید وسیم، جنرل اسلم سے گفتگو کررہے ہوتے ہیں تو جنرل اسلم فرماتے ہیں آرام آرام سے جنگ کو جاری رکھو اور دو گولیاں الگ رکھ دینا، جب تمام گولیاں اور گرنیڈ ختم ہوجائیں تبھی خود کو مارنا، اس سے قبل نہیں۔ جبکہ دوسری جانب فون پر موجود ساتھی رازق اور وسیم جنگ میں مصروف رہتے ہوئے بھی انتہائی تحمل سے قوم کو پیغام بھی دیتے ہیں اور شہادت سے قبل جنرل سے اجازت لیکر آخری گولی اور آخری سانس کا فلسفہ دہراتے ہوئے جام شہادت نوش کرکے بلوچ پر فدا ہوکر تا قیامت امر ہوجاتے ہیں۔
جنرل اسلم اور ساتھیوں کی قربانیاں بلوچ سرمچاروں سے یہ توقع کرتی ہیں کہ اب دشمن کو کسی بھی طور پر سرزمین بلوچستان پر آرام سے رہنے نہیں دینا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے سوچ کو اس قدر وسیع کرنا ہے کہ کسی بھی معاملے پر غیرسنجیدگی و جذباتی پن کا مظاہرہ کیئے بغیر مکمل ایمانداری سے اور مکمل سنجیدگی سے فیصلہ کرتے ہوئے دشمن اور کاسہ لیسوں کیلئے بلوچستان کی وادیوں کو موت کا پیغام بنایا جائے تاکہ دشمن بلوچ وطن سے جلد از جلد نکل جائے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔