آئی ٹی یونیورسٹی اور نوآبادیاتی نظام تعلیم – غنی بلوچ

800

آئی ٹی یونیورسٹی اور نوآبادیاتی نظام تعلیم

تحریر : غنی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

نو آبادیاتی نظام سے مراد کسی ایک علاقے کے لوگوں کا دوسرے علاقے میں جا کر اپنی نئی آبادیاں قائم کرنا اور اردگرد کے علاقوں پر قبضہ کر کے اسے توسیع دینا ہے۔ جہاں یہ نوآبادی قائم کی جاتی ہے وہاں کے اصل باشندوں پر قابض گروہ عموماً اپنے قوانین، معاشرت اور حکومت بھی مسلط کر دیتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ قابض گروہ اور نوآبادی کے اصل باشندوں کے درمیان نا انصافی اور جبر پر مبنی ایک تعلق ہے جس میں اصل باشندوں کا استحصال ہوتا ہے۔

نوآبادی یا کالونی (colony) سے مراد ایسا علاقہ یا ملک ہوتا ہے، جہاں غیر ملکیوں کی حکومت ہو۔ یہ غیر ملکی اس نوآبادی کی دولت مختلف طریقوں سے لوٹ کر اپنے ملک میں منتقل کرتے ہیں، جس سے نوآبادی میں غربت بڑھتی چلی جاتی ہے جبکہ نوآبادی پر قبضہ کرنے والے ملک میں بڑی خوشحالی آ جاتی ہے۔ نوآبادی پر قبضہ کرنے والے ملک کو استعماری ملک (imperial power) کہا جاتا ہے۔

اسی نظام کے ساتھ ہی نوآبادیات (Imperial Power)اپنا ایک علیحدہ نظام تعلیم بھی نافذ کرتا ہے نوآبادیاتی نظام کو نافذ کرنے کیلئے نوآبادیات یا قبضہ گیر سب سے پہلے اصل باشندوں کا استحصال کرکے وہاں کے تعلیمی نظام کو تباہ و برباد کرکے تعلیمی اداروں پر اپنا قبضہ جماتا ہے، پھر اس کے بعد اپنا نظام تعلیم سمیت نصاب اور نصابی سرگرمیوں سے لے کر تعلیمی اداروں کے سربراہاں تک اپنے ہی بندے بٹھاتا ہے یا ایسے بندے لاتا ہے جو اس نوآبادیات کو قبول کر چکے ہوں، اس تمام پروسیس میں اس نوآبادی قوم کے دانشور ،سیاست دان سب شامل ہوتے ہیں ۔

فرانز فین اپنے کتاب افتادگان خاک میں لکھتے ہیں کہ نوآبار کار ملک کے تاریخ دان نوآبادی کے تاریخ کے حوالے تحقیق کرتے ہیں اس کے بعد وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس ملک کے حالت کئی سالوں سے خراب تھے یہاں تہذیب نام کی کوئی چیز نہیں ہے ،نہ ثقافت ،نہ علم و ادب وغیرہ ۔

اسی کے ساتھ ہی نوآباد کار یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کرتا ہے کہ مہذب معاشرہ ،اچھی تہذیب ، ثقافت،علم و ادب ( قابل لوگ ) وہ ہیں جو نوآباد کار کے پاس ہیں۔ اگر نوآبادی کے باسیوں کو تعلیم یافتہ کرنا ہے ،تہذیب ،ثقافت ، علم و ادب کے بلندی تک لانا ہے تو ان کیلئے ضروری ہے کہ وہ نوآباد کار کے تہذیب ،ثقافت، علم و ادب کو سیکھیں۔

نوآبادکار وہاں کے باسیوں کے ساتھ جانوروں کی طرح پیش آتا ہے، ان کو وحشی جاہل گنوار سمجھتا ہے۔ ان کے نزدیک انسان وہی ہے جو نوآبادکار کے قبضے اور استحصال کو قبول کرے۔ان کی تہذیب ،ثقافت ،علم و ادب کو اپنائیں ۔نوآباد کار نوآبادی کے باسیوں کو یہ بھی تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ لوگ نوآبادکار کے محتاج ہیں۔ہمارے بغیر یہ ملک نہیں چلا سکتے۔ یہ ترقی یہ تعلیم اسی نوآباد کار کی وجہ سے ہے۔
(اوفتادگان خاک ۔ فرانز فینن)
یعنی نوآباد کار ہمیشہ یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ ہمارے بغیر یہ لوگ کچھ بھی نہیں ہیں، ان پاس ایسے بندے نہیں جو اس ملک کو یا اس نظام کو یا اس نظام تعلیم کو چلا کر بہتر کر سکیں ۔ ان کو جو کچھ مل رہا ہے یہ ہمارا مرہونِ منت مل رہا ہے۔ اگر ہم نہ ہوتے تو یہ جاہل گنوار بن کر اس سماج میں پرلے درجے کے شہری کی حیثیت سے رہتے۔

اس وقت بلوچستان میں پورے سسٹم کو لے کر نظام تعلیم تک یہی نظام ہے یعنی نوآباد کار اور نوآبادی والا اور اس نظام کو نافذ کرنے میں ہماری سیاسی پارٹیاں، طلباء تنظیمیں، سیاسی لوگ، سب شامل ہیں کیونکہ آئی ٹی یونیورسٹی سے کر خضدار انجئیرنگ اور بلوچستان یونیورسٹی تک کا یہی عالم ہے اور تمام مکاتب فکر کے لوگ اس حوالے سے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں یعنی ہم نے نوبادکار کی نوآبادتی نظام کو قبول کرکے اپنے ہی وطن میں تیسری درجے کے شہری اور اکثریت میں ہوکر دن بدن تعلیمی اداروں میں اقلیت میں بدلتے جا رہے ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔