یعقوب مہر نہاد، زاہدان کا یوسف عزیز مگسی
تحریر۔ ریاست خان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ تاریخ کو اگر کرید کر دیکھا جائے تو ہمیں صاحب اعمال شخصیتوں کی کثیر تعداد کا نام و پتہ ملتا ہے، جو کبھی پس زنداں بلوچ و بلوچستان دوستی کے پاداش میں حالت اذیت میں رہے اور کبھی برسر زمیں باطل سے ٹکراتے، مقام شہادت تک پہنچتے رہے۔ بلوچ کا بحیثیت ایک قوم دنیا میں زندہ رہنا ایسے ہی نیک انسانوں کے مرہون منت ہے۔ بلوچوں کے زبان، انکی ثقافت، ان کی تاریخ و تاریخی سرزمیں کی حفاظت کیلئے دی گئی ان کی قربانیاں انہیں بلوچ تاریخ کے اوراق میں سرخرو ٹہراتی ہے۔
میر چاکر و نصیر خان نوری سے بھلا ایسا کونسا بلوچ ہوگا جو ناواقف ہو، جن کی محنت نے دنیا میں بلوچوں کے قومی و سیاسی تشخص کی بنیاد رکھی، جنہوں نے اپنے تلواروں سے بلوچ وطن کے سرحدوں کی حفاظت کی اور بلوچ دشمن قوتوں کو بلوچوں کی تاریخی سرزمین سے دور رہنے پر مجبور کیا۔
اسی طرح جب قلات پر پہلی بار انگریز فوجوں نے حملہ کیا تو تاریخ ہمیں مہراب خان اور ان کے ساتھیوں سے روشناس کراتی ہے جو بلوچی حکومت و بلوچ اقتدار اعلیٰ کے تحفظ کی غرض سے انگریزوں سے لڑ پڑے اور جام شہادت نوش کی۔
ایسی ہی ایک شخصیت بلوچستان کے ہر دل عزیز رہنما واجہ یوسف عزیز مگسی بلوچ کی ہے، جو بلوچ وطن پر بیرونی قبضے کے خلاف اٹھنے اور پھر کچلے جانے والے تحاریک کے تسلسل کو ایک نئے رنگ میں برقرار رکھنے کے عزم کے ساتھ آگے آئے اور بلوچوں کو قوم پرستی کے جدید نظریات سے روشناس کرایا، بلوچوں کو پہلی بار ان میں موجود عصری تقاضات سے غیر ہم آہنگ قبائلی تنظیموں سے نکال کر انقلابی بنیادوں پر استوار قومی تنظیم بنانے کی ترغیب دی۔
اپنے انہی نظریات پر پابندی اور بلوچ دوستی کے عظیم گناہ کی بنا پر قید و بند سے لیکر وطن بدری تک آپ پر ہر طرح سے زمین تنگ کی گئی تاکہ آپ کو کسی طرح مجبور کیا جاسکے کہ آپ اپنے نظریات سے دستبردار ہوں یا مصلحت کا شکار ہو کر خاموش بیٹھ جائیں۔
پر دشمنان ملت یہ بھول بھیٹے تھے کہ
“کہساروں کو عطا رسم نہیں ہے خامشی
رات سو جائے تو بہتا ہوا چشما بولے”
دشمن کے ہر حربے کو ناکام بناتے ہوئے، آپ اپنے اصولوں پے ڈٹے رہے، اور دن رات ایک ایسے سماج کو یکجاء کرنے کی جدوجہد میں مصروف رہے جو قبائی، لسانی و طبقاتی حوالے سے کئی حصوں میں بٹی ہوئی تھی، آپ نے انجمن بلوچاں کے نام سے پہلی اور باقاعدہ بلوچ قوم پرست سیاسی تنظیم کی بنیاد رکھی، قبائیلت کے خلاف ایک منظم تحریک چلانے کا سحرہ بھی آپ کے سر جاتا ہے، اپنے قومی وقار و پہچان سے فراموش و منتشر بلوچ قوت کو یکجاہ کرنے کیلئے آپ نے کئی کانفرنسس کا انعقاد کیا، لوگوں میں سیاسی شعور اجاگر کرنے کی غرض سے کئی اخبارات کا اجراء بھی کیا۔
1935 و ہونے والے ہولناک زلزلے نے آپ کی صورت میں بلوچ قوم کی اس نومود تحریک کو بھی مٹی کے اندر دھنسا دیا، جو آپ کی سرپرستی میں آگے چل کر انگریز کو یہاں سے نکال بھگانے اور بلوچوں کو قبائلی نظام کے چنگل سے آزاد کرانے کی ایک موثر قوت بن سکتی تھی۔ لیکن آپ کے دن رات کی کوششوں کا بلواسطہ یا بلاوسطہ اثر آج بھی بلوچ سماج میں موجود ہے، جو اگر حالات، واقعات و ماحول کے زیر اثر کبھی گرم و کبھی سرد رہی پر وہ تسلسل کبھی بھی نہ ٹوٹا۔
اسی سلسلے کہ ایک کڑی شہید یعقوب مہر نہاد بلوچ ہیں، جنہوں نے اس علم کو اٹھائے رکھنے کا عہد لیا جو بلوچ بقا کا ضامن تھا، اس صدا کا ہم صدا بننا چاہا جسے صدا بر حق کہا جاتا ہے۔ شہید یعقوب مہر نہاد ایران کے زیر قبضہ بلوچستان کے شہر زاہدان (دزآپ) میں پیدا ہوئے۔
زاہدان ایران کے زیر قبضہ بلوچوں کا ایک تارخی شہر ہے، جہاں پچھلے کئی ہزار سالوں سے بلوچ آباد چلے آرہے ہیں. زاہدان کے غیور بلوچوں نے ہر دور میں بیرونی گھس پیٹیوں سے مزاحمت کی روایت کو زندہ رکھا ہے اور انہیں روایات کو یوسفی طرز پے استوار کرنے کیلئے یعقوب مہر نہاد آگے آتے ہیں۔
شہید یعقوب جب جوان ہوتے ہیں تو اپنے سماج و قوم کی تباہ حالی کو شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں، بلوچستان کے لوگوں کو ان کے جائز سیاسی، سماجی و انسانی حقوق سے محرومی پر وو احتجاج کرتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے، جب پاکستانی زیر قبضہ بلوچستان میں آزادی کے شعلے پوری آب و تاب کے ساتھ بڑھک رہے ہوتے ہیں، نواب اکبر خان بگٹی کی سر پرستی میں بلوچ مزاحمت کار بلوچستان کے چاروں اطراف سے پاکستانی افواج پر حملہ آور ہو رہی ہوتی ہیں جبکہ دوسری طرف ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں عبدلمالک و روف ریکی کی تنظیم “جنبش مقاوت مردم بلوچستان” اپنی مسلح کاروائیوں سے ایرانی فوج کو پریشان کئے ہوتی ہے۔
شہید یعقوب مہر نہاد اپنی قوم کی حالت زار بہتر بنانے کے لئے مسلح جدوجہد کے بجائے آئنی و ادبی راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر بلوگز لکھنے کا کام شروع کرتے ہیں، جن کے ذریعے وہ دنیا کو بلوچستان میں ایرانی حکام کے مظالم بتانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ ایک سماجی ادارے کا قیام وجود میں لاتے ہیں جسے وہ “انجمن جوانان صادی عدالت” کا نام دیتے ہیں۔ انجمن کے ذریعے وہ لوگوں میں سیاسی و سماجی شعور اجاگر کرنے کا کام کرتے ہیں۔
بلوچ جدوجہد سے خائف ایرانی حکام منشیات کے استعمال کو قانونی قراردیتے ہیں، جس پر شہید یعقوب مہر نہاد احتجاج کرتے ہیں، وہ اس عمل کو بلوچ نوجوانوں کو قومی بیگانگی کی طرف دکھیلنے کی سازش قرار دیتے ہیں اور اس کے خلاف اپنے ہم خیال رفقاء کے ہمراہ ایک منظم تحریک چلاتے ہیں اور منشیات کے استعمال کے سماج و قوم و ملت پر مضر و خطرناک اثرات کے بارے میں لوگوں کو آگاہی فراہم کرتے ہیں۔
جب پاکستانی افواج بلوچ رہنما اکبر بگٹی کو شہید کرتے ہیں تو یعقوب زاہدان میں اپنے رفقاء و شاگردوں کے ہمراہ یوم سیاہ مناتے ہیں اور زاہدان کی گلیوں میں “بلوچوں ایک ہو جاؤ ورنہ مٹادئے جاؤ گے” کے نعرے بلند کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم سب ایک ہیں، ایک ہی زبان بولتے ہیں، ایک جیسے پہناوے پہنتے ہیں اور ایک ہی سرزمیں پے آباد ہیں، جسے دشمنوں نے تقسیم کر دیا ہے، اگر ہم اب بھی ایک نہ ہوئے تو مٹا دیئے جائینگے۔
بلوچستان میں مصنوعی طور پر پھیلائی جانے والی مذہبی جنونیت کو وہ بلوچ روایات کے منافی گردانتے ہیں، اپنے بلاگز میں وہ بلوچوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ شیعہ سنیوں کے مسجدوں میں نمازیں ادا کریں اور سنی شیعہ مسجدوں میں، ہمارا مقصد خدا کی عبادت ہونا چاہئے نہ کے خدا کو بانٹنا۔
جلد ہی آپ کی مقبولیت بلوچستان سے نکل کر ایران و باہری دنیا تک پھیلنا شروع ہو جاتی ہیں. ایک دفعہ بین لاقوامی انسانی حقوق کی ایک تنظیم ایرانی دارالحکومت تہران میں ہونے والے ایک کانفرنس میں آپ کو تقریر کی دعوت دیتی ہے. آپ اپنے تقریر میں بلوچستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر دنیا کی خاموشی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، آپ ایران میں ریاست کے اپنے شہریوں کے مذہبی عقائد و رنگ و نسل کی بنیاد پر تمیز کرنے کی پولیسیز پر شدید نقطہ چینی کرتے ہیں، جس کی مثال آپ ایرانی آئین کے اس آرٹیکل کی پیش کرتے ہیں جس کے مطابق ایک سنی کبھی بھی ایرانی صدر نہیں بن سکتا، وہ ایرانی حکام پر زور دیتے ہیں کہ قومیتوں کو ان کے جائز حقوق دیئے جائیں، ان کی زبان و ثقافت کو تسلیم کیا جائے ورنہ لوگ ریاست سے اپنا ناتا توڑ دینگے۔
اپنی قوم دوستی کی وجہ سے آپ ایرانی حکمرانوں کی آنکھوں میں ایک کانٹے کی مانند کھٹکنے لگے تھے، بلوچستان، کرمان و دیگر بلوچ علاقوں میں بڑھتی آپ کی مقبولیت ایرانی حکام کی تشویش میں اضافے کا باعث بنتی جا رہی تھی، وہ کسی نہ کسی بہانے آپ کو راستے سے ہٹانا چاہتے تھے۔
2007 کو آپ کے دفتر پر اچانک حملہ بول دیا گیا، آپ کو اپنے بھائی و درجنوں نوجوانوں کے ہمراہ حراست میں لیا گیا، آپ پر عبدالمالک ریکی و ان کی تنظیم جنبش کی معاونت و تشدد پھیلانے کا الزام لگایا گیا۔
2008 کو بنا کسی ٹھوس ثبوت کے آپ پر بلوچ مزاحمت کاروں کو امداد فراہم کرنے کے الزام میں پھانسی کی سزا سنائی گئی۔
آپ کی شہادت کے بعد آپ کے بلاگز پڑھنا غیر قانونی قرار پایا اور آپ و آپ کی تنظیم کے تمام سوشل میڈیا سائٹس کو ایران میں سنسر کر دیا گیا۔
یہ یوسف عزیز و شہید یعقوب مہر نہاد جیسے کرداروں کا مرہون منت ہے کہ آج بلوچ نوجوان خواہ وہ ایرانی یا پاکستانی مقبوضہ بلوچستان کے جس بھی کونے میں رہتا ہے، وہ اپنے سرزمیں، اپنے ثقافث، اپنے تاریخ، اپنے قومی پہچان کا دفاع کرنے کے جذبے سے سرشار، اپنے اجتماعی زندگی کا اظہار خود کو قربان کرکے کر رہے ہیں، اور قربانیوں کا یہ سلسلہ تب تک جاری رہے گا، جب تک کہ وہ خواب پورے نہ ہوں جو شہید یعقوب مہر و یوسف عزیز نے بنے تھے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔