بلوچستان بھر میں لوگوں کو لاپتہ کرنے کا عمل شدت کے ساتھ جاری ہیں ۔ بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن
بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے ایک بیان میں بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ ہزار گنجی میں ہونے والے دھماکوں میں بیس افراد کی ہلاکت اور تینتالیس افراد کے زخمی ہونے پر گہرے دکھ اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں گذشتہ کئی سالوں سے مذہبی اقلیتوں کونشانہ بنایا جارہا ہے جس کی مذمت کرتے ہیں۔
بلوچستان میں ہزارہ برادری کو گزشستہ کئی سالوں سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے جس سے ہزارہ برادری کو اپنی زندگی حوالے شدید تحفظات موجود ہیں۔ ہزارہ برادری پر حملہ حکومت کی ناکامی کا ثبوت ہے کیونکہ اتنے بڑے سیکورٹی حصار کے باوجود مذہبی اقلیتوں کا نشانہ بننا تعجب کی بات ہے۔ اسی طرح ملک کے دیگر صوبوں میں بھی لوگوں کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے کی کوششیں تشویشناک ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ میں ہزار گنجی بم دھماکے کے خلاف ہزارہ برادری کا دھرنا جاری
ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچستان میں سیکورٹی فورسز کی جانب سے فوجی آپریشن کا سلسلہ پوری شدت کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ مارچ کے مہینے میں ساٹھ لوگوں کو اغوا کیا گیا جبکہ تیرہ مسخ شدہ لاشیں بر آمد ہوچکی ہے جن کی شناخت نہیں ہوسکی۔ گذشتہ روز مشکے کے علاقے مہیی میں سیکورٹی فورسز نے ایک گھر پر چھاپہ مار کر یعقوب ولد مراد، اس کے بھائی دل جان ولد مراد اور دو بیٹوں لیاقت ولد یعقوب اور عزیز اللہ ولد یعقوب اور گل محمد ولد رضا کو لاپتہ کردیا۔ بلوچستان میں لوگوں کو لاپتہ کرنے کا عمل پوری شدت کے ساتھ جاری ہیں لیکن حکومتی ادارے اس حوالے مکمل خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے کے علاوہ رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لئے من گھڑت بیانات دے رہے ہیں جو حکومتی کی غیر سنجیدگی کو عیاں کرنے کے لئے کافی ہے۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں حکومت پاکستان اور حکومت بلوچستان سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ بلوچستان میں اقلیتوں کے جانوں کو درپیش خطرات کے پیش نظر اقدامات اٹھائیں اور ان کے تحفظ کے لئے ضروری پالیسیاں مرتب کریں۔