کیا، کیوں اور کیسے
تحریر:نودشنز بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
انسان کا واسطہ جب اس کائنات سے پڑتا ہے تو انسان شروع سے کیوں، کیا، کیسے کو اپنے ساتھ جنم دیتا ہے اور انسان کی کامیابی اور ناکامی انہی تین الفاظ میں قید ہوتا ہے۔ شعوریافتہ لوگ ان سے آگے چلے جاتے ہیں اور وہ ان الفاظ کی تشریح اپنے کام سے کرتے ہیں اور ناکام لوگ انہی تین الفاظ میں پھنسے ہوتے ہیں اور آخری سانس تک وہ ان تین الفاظ کے معنی کو ڈھونڈ نہیں سکتے اور ساری زندگی جو بھی کام کرینگے، ان کے سامنے یہ الفاظ رکاوٹ بنتے رہینگے۔
جو لوگ ان الفاظ کو پار کرتے ہیں اور آگے چلے جاتے ہیں تو وہ زندگی کے اصل معنی سے واقف ہوتے ہیں اور جانتے ہیں ہمیں کیا کرنا ہے کیسے اور کیوں کرنا ہے۔
ہم اگر آج اپنے ارد گرد ان الفاظ میں پھنسے ہوئے لوگوں کے بارے میں باتیں کریں تو ان میں پھنسے لوگ ہمیں ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں مل سکتے ہیں، جو اس وقت ہر کام کرنے یا کرانے میں سب سے پہلے ان چیزوں میں پھنس کر دلیل پہ دلیل دیں گے۔ جس میں تھیلس ،فیثا غورث اور سقراط کو باتین کرکے پھر بھی نہ خود مطمائن ہوتے ہیں نہ کہ دوسرے کو مطمائن کرسکتے ہیں اور شروع سے لے کر آخر تک کیوں، کیا اور کیسے میں پھنسے ہوتے ہیں اور کام اسی جگہ رکھ کر نا آگے جانے کا نام لیتے ہیں نہ ہی پیچھے، ہاں وقت اور حالت کی نزاکت کے مطابق یہ کیوں کیا اور کیسے اکثر لوگوں کو آگے جانے کے بجائے پیچھے دکھیلتے رہتے ہیں اور آگے جانا صرف خواب اور خیالوں کی دنیا میں انسان کو نصیب ہوتا۔
آج دنیا میں جتنے بھی عظیم کردار ہیں، اگر ان کے بارے ہم پڑھ لیں یا انہیں ہلکا سا جاننے کی کوشش کریں تو ہم اس نتیجے پہ پہنچ جائینگے کہ وہ انہی تین الفاظ کو کراس کرکے اس سے آگے چلے گئے ہیں۔
گذشتہ روز سوشل میڈیا کی توسط سے شہید جنرل اسلم اور وسیم اور رازق کی چینی قونصلیٹ کے حملے کے وقت گفتگو سننے کو نصیب ہوا تو میں اس وقت سوچ میں پڑ گیا کہ کوئی موت کو گلے لگانے جارہا ہے اور موت آکر اس کے سر پہ کھڑی ہے اور اس کے باجود وہ اتنے حوصلے اور ہمت کہاں سے لاپائے ہیں؟
تو بات سادہ سا یہی ہے، یہ لوگ کیا کیوں کیسے سے آگے جانے والے لوگ ہیں۔ وہ جانتے تھے ہم یہ حملہ کیوں کر رہے ہیں ہمارا مقصد کیا ہے اور یہ کیسے ہمیں منزل تک پہنچائے گا۔
اگر وہ ان چیزوں کو نہ سمجھتے اور ان سے آگے نہیں جاتے۔ ایک تو انہوں نے یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا کہ اس وقت بلوچ دانشور اور قلم کار سے لے کر عام سا ورکر یہ سمجھ رہا تھا کہ اس بار پھر بلوچ تحریک آزادی پچھلے ادوار کے مطابق سرد مہری کا شکار ہورہا ہے اور ایک بار پھر ہمارے نصیب میں پاکستانی غلامی سے چھٹکارا نہیں لکھا ہے۔ اگر ان کے بارے میں بات کریں تو سادہ لفظوں میں جواب صرف یہی ہوگا، وہ بھی کیا کیوں اور کیسے میں پھنسے ہوئے لوگ ہیں اور جب تک وہ ان تین الفاظ میں پھنسے ہوئے ہیں، نہ کچھ ہوگا نہ کچھ خود کرینگے اور نہ کسی دوسرے کو کچھ کرنے دینگے۔
مگر ریحان جان ،وسیم جان، رازق جان اور ازل جان اس کیوں، کیا اور کیسے سے نکلے ہوئے لوگ تھے اور زندگی کے اصل معنوں میں فلاسفر تھے۔ جو سقراط اور ارسطو کو پڑھنے والوں سے آگے تھے اور اپنے زندگی میں ایک اور فلسفے کو رقم کی اور کیا، کیوں اور کیسے سے نکلنے کا ایک سادہ سا راستہ دکھایا، جو زندگی اور اصل مقصد کا راستہ ہے، جس میں کیوں، کیا اور کیسے کی کوئی گنجائش نہیں صرف واحد ایک راستہ ہے۔
آج ہمارے یہاں (بلوچ تحریک میں) ایک سوچ عام ہوگئی ہے کہ غلطیوں اور کوتاہیوں پہ تنقید کرنا ہوگا اور تنقید ہرکسی کا حق ہے اور کریں صحیح معنوں میں اگر ہم اس طرح کے سوچ رکھنے والوں کے بارے میں بات کریں تو جواب میرے نزدیک پھر وہی ہوگا کہ یہ لوگ کیا کیوں کیسے میں اس قدر پھنسے ہوئے ہیں وہ اپنے اندر اس کیا کیوں کیسے کا جواب ڈھونڈ نہیں سکے ہیں اور اب دوسروں کے اندر جھانک کر ان الفاظ کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں اور آخری سانس تک اس کو ڈھونڈ نہیں پائینگے کیوں کہ اس طرح کے لوگ اپنے اندر خود پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ خاک دوسرے کو ڈھونڈ سکیں گے ان چیزوں سے نکلنے کا سادہ حل یہی ہوگا ہر انسان اپنے اندر جھانک کر دوسروں پہ ایک انگلی اٹھانے سے پہلے اُن چاروں انگلیوں پہ بھی ہلکی نظر دیکھ لے کہ ان کا رخ اس کی طرف ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔