کونسی انسانیت – شہیک بلوچ

241

کونسی انسانیت

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

انسانیت کے علمی معنی سے بے خبر، اسے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا، نوآبادکار کا گمراہ کن شیوہ رہا ہے۔ اس حوالے سے “افتادگان خاک” کے دیباچہ میں سارترے طنزیہ کہتا ہے کہ یورپی نوآبادکاروں کو آپ چھوڑ دیں، جو انسانیت کی بات کرتے نہیں تھکتے لیکن جہاں کہیں انہیں انسان نظر آتا ہے وہ اسے قتل کردیتے ہیں۔ نوآبادکار کی انسانیت اس کے اپنے مفادات کے تحفظ کا نام ہے۔ افریقہ میں انسانیت کا معیار یہ رکھا گیا تھا کہ “کتوں اور افریقیوں کا آنا منع ہے۔” ہر جگہ انسانیت کے معیار کا تعین اگر بالادست کے ہاتھ میں دے دیا جائے، تو وہ اسے اپنے مفادات کے مطابق ہی تشبیہہ دے گا اور یہ انسانیت محض اس کے اپنے چوکھٹ تک ہی محدود رہے گی۔ جب بات آتی ہے، دیسی باشندے کی تب اس پر انسانیت گونگا، بہرا اور اندھا بن جاتا ہے۔

سرزمین جن کی اپنی ہو، وہی اسی سرزمین پر باہر سے کوئی آکر جبری قبضہ کرے اور ظلم و قہر کی وہ انتہا جس سے انسانیت کی روح تک کانپ اٹھے لیکن جب آخر میں اس کے خلاف جدوجہد ہو تب وہی دیسی غیر انسانی حرکتوں کا مرتکب ہوجاتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جبر کرنے والا انسانیت کا مجرم کیوں نہیں ہوتا؟ آخر کس نے ایک انسان کو اختیار دیا ہے کہ وہ کسی دوسرے کے گلزمین کا مالک بن بیٹھے؟

انسانیت تو انسانوں کو برابری کے بنیاد پر جینا سکھاتا ہے جبکہ قبضہ گیریت تو سراسر غیر انسانی عمل ہے، جس میں دیسی انتہائی مجبور اور تباہ حال معیار زندگی گذارتا ہے۔

یہ سوال استاد اسلم نے بھی کیا تھا کہ جب وہ آئے تو کیا ان کے ہاتھوں میں پھولوں کا ہار تھے؟ یا بندوقیں تھیں؟ جب وہ بندوق کی بنیاد پر داخل ہوئے تو یہاں انسانیت کی کونسی گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔

قبضہ گیریت انسانیت کی مکمل نفی ہے، یہ دونوں ایک ساتھ کبھی نہیں چل سکتے کیونکہ غلام و آقا میں رشتہ کبھی انسانیت کی بنیاد پر استوار نہیں ہوتا بلکہ یہ جبری ہوتا ہے۔

بلوچ گلزمین پر قبضے سے لے کر آج تک پنجابی ریاست کی انسانیت نے ہمارے سماج کو کن ثمرات سے نوازا ان کو بھی گننا ہوگا۔ بلوچ نسل کشی سے لے کر ایٹمی تابکاری تک اور مسنگ پرسنز سے لے کر مسخ شدہ بریدہ لاشوں تک، مذہبی جنونیت سے لے کر قبائلی جھگڑوں تک، سماجی جرائم سے لے معاشی ابتری تک ان سب میں انسانیت کا مقام کہاں رہ جاتا ہے؟

کونسی ایسی مثال ہے جو انسانیت کا معراج ہو؟
ایسا کونسا غیر انسانی حربہ یا ہتھیار بلوچ کے خلاف استعمال نہیں کیا گیا؟
مسخ شدہ لاشوں پر انسانیت کے مقام کو ہم کہاں تلاش کریں؟
دبے دبے الفاظ میں چند مصلحت پسندانہ جملوں سے کیا ان انسانیت سوز المیوں کا مداوا ہوسکتا ہے؟
ماؤں بہنوں کیساتھ ہونے والی زیادتیوں پر کوئی انسانیت کے لیے کیوں نہیں بولا؟
کیا انسانیت محض پنجابی نوآبادکار کے لیے ہے؟

نام نہاد لیفٹسٹ و سوشلسٹوں کا سی پیک پر حملے کو مزدوروں پر حملہ قرار دینا کونسی انسانیت کے زمرے میں آتا ہے؟ ایک مقبوضہ علاقہ ہے جہاں ایک ریاست ہر حربہ استعمال کررہی ہے اور ایسے میں بلوچ کیا پھولوں کے ہار سے یہ لڑائی جیت سکتا ہے؟

ایک دورانیہ ایسا بھی آیا جب ریاستی جبر کے انتہا پر بھی بلوچ جہدکاروں نے کسی بیگناہ انسان کو نشانہ نہیں بنایا، اس کی وضاحت استاد اسلم نے بھی کی کہ “ہمارے کچھ حدود و قیود ہیں، ہم معیاری انسانی روایات کے امین ہیں، اگر ہم بھی اس سطح تک پہنچ جائیں تو پھر ہم میں اور قبضہ گیر میں کیا فرق باقی رہ جاتا ہے۔ ہم بیگناہ انسانوں کو حدف نہیں بناسکتے۔”

یہ جنگ کوئی حادثاتی ابھار نہیں بلکہ ایک تاریخی شعور کا حاصل ہے اور اس کے بانی کردار انسانیت کی اہمیت سے کافی اچھی طرح آشنا تھے اور آج بھی جتنے بلوچ جہدکار برسرپیکار ہیں، وہ بطور انسان اپنے قوم کو قبضہ گیریت کے انسانی المیئے سے مکمل نجات پہنچانے کے لیئے مصروف عمل ہیں اور آج وہ دور نہیں رہا کہ بلوچ کو کسی طرح کے مصلحت پسندی کے تحت دھوکا دیا جاسکے کیونکہ بلوچ جہدکار اس بات کا تعین کرچکا ہے کہ نوآبادیاتی نظام کے جبر کو بغیر تشدد کے کسی صورت ختم نہیں کیا جاسکتا اور بلوچ گلزمین پر ہر طرح کے نوآبادیاتی پالیسیوں کو کاؤنٹر کرنا بلوچ جہد کا نہ صرف حق ہے بلکہ انسانی فریضہ بھی ہے۔

یہ جنگ نوآبادیاتی نظام کے خلاف انسانیت کی جنگ ہے اور جو بھی اس میں نوآبادیاتی نظام کا حمایتی بنتا ہے وہ انسانیت کا دشمن ہوگا جس کو تاریخ کسی صورت معاف نہیں کرسکتا۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔