ماما قدیر بلوچ نے اس موقعے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اٹھارہ سال ہوگئے ہیں کہ لاپتہ کرنا، شہید کرنا اجتماعی قبروں میں دفن کرنے کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ ماں بہنیں بوڑے سب اپنے لخت جگروں کی بازیابی کیلئے انتظار کررہے ہیں۔ جو افراد سالوں سے لاپتہ ہے وہ پکار ررہے ہیں کہ ہم ابھی تک زندہ ہیں ہماری بازیابی کیلئے جدوجہد تیز کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ قاتلوں نے سینہ تان کر یہ بھی نہیں بتایا کہ ان ہزاروں فرزندوں کو شہید کرکے راستے سے ہٹانے کا بنیادی سبب کیا تھا اور نہ ہی ایسی کسی غیر جانبدار بین الاقوامی تحقیقاتی ادارے نے اس کے محرکات بیان کیئے ۔ بلوچ قومی سیاست کی تاریخ میں رہنماؤں، کارکنان کو خود اس کی سرزمین اور اپنے لوگوں کے درمیان سے بندوق کے زور پر اغواء کیا جاتا ہے اور وہ بعد میں اپنے سرزمین پر بے گور و کفن پائے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا دوسروں کی مرضی سے زندگی گزارنا بزدلی، بے حسی ہے اصل زندگی وہ ہوتی ہے جسے چھین کر ایک طبقے نے خود کو سنوارا ، آسودہ کیا ہے ۔