کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری

182

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے قائم بھوک ہڑتال کیمپ کو 3567 دن ہوگئے، سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفود سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ریاست اور اس کے خفیہ اداروں نے ظلم و جبر، وحشیت و صفاکیت کی فصلیں کھڑی کی ہوئی ہیں ریاست پاکستان اور اس کی غیر جمہوری حکمران جمہوری جہدوجہد سے بہت زیادہ خوفزدہ رہتے ہیں اس لیئے وہ ظلم و جبر اور آمرانہ ہتھکنڈوں کے ذریعے ہماری پر امن جہدوجہد کو روکنے کی بھونڈی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

انہوں نے کہا پاکستانی فورسز فوجی آپریشنوں کے دوران بستیوں، گاؤں کو صفہ ہستی سے مٹاتے ہیں پھر اس گاؤں کو کسی مسلح تنظیم کا کیمپ ظاہر کرتے ہیں، فوجی کاروائی کے دوران نہتے یا پھر پہلے سے جبری گمشدہ بلوچ فرزندوں کو شہید کرکے ایف سی یا خفیہ ادارے ان کو شدت پسند ظاہر کرتے ہیں اس طرح کے جعلی مقابلوں کے ذریعے بلوچ نسل کشی کو جاری رکھا جارہا ہے۔

ماما قدیر نے کہا بلوچستان میں میڈیا ناپید اور شجر ممنوعہ ہے جبکہ ا نسانی حقوق کے تنظیموں کا کردار اور دلچسپی محض واجبی سی رہ گئی ہے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب ادارے ریاست سے بہت خوفزدہ ہیں۔ انہوں نے کہا بلوچ، سندھی، پستون اور ہزارہ اقوام کا دشمن مشترک ہے لہٰذا دشمن کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی صورتیں ڈھونڈنی چاہیئے۔