بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے پریس کلب کے سامنے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3561دن مکمل ہوگئے۔ کوئٹہ سے سول سوسائٹی اور وکلاء برادری نے کیمپ آکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وی بی ایم پی اقوام متحدہ کی توجہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب مبذول کراتے ہوئے اپیل کرتی ہے کہ جنگی جرائم، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مرتکب ریاست پاکستان کے خلاف عالمی قوانین تحت کاروائی عمل لاکر بلوچ قوم کو ریاستی ظلم و جبر سے نجات دلائے اور بلوچستان میں فوجی آپریشنوں، ماورائے آئین اغواء نما گرفتاریوں، گمشدگیوں اور تشدد زدہ لاشوں کی برآمدگی کو بند کرنے میں کردار ادا کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان سے دس ہزار سے زاہد افراد کو تشدد کا نشانہ بناکر ان کی مسخ شدہ لاشیں مختلف علاقوں میں پھینکی جاچکی ہے۔ اس عمل کو عالمی میڈیا بھی نا پسندیدہ قرار دیتا ہے ہم امید کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں، بلوچ سیاسی کارکنان کی ماورائے آئین گرفتاریوں، گمشدگیوں اور ان کی گولیوں سے چھلنی لاشیں پھینکنے کے واقعات کی روک تھام کے لیے نہ صرف ریاست پاکستان پر دباؤ ڈالیں گے بلکہ بلوچ، سندھی ، پشتون، ہزارہ اقوام کو ظلم و جبر سے نجات دلانے کے لیے موثر اور عملاً کردار ادا کریں گے۔
ماما قدیر نے کہا ہمیں افسوس ہے کہ پشتون، ہزارہ ، سندھی اور بلوچ نسل کشی جیسے مکروہ عمل پر ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا جو خود اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے۔
دریں اثنا وی بی ایم پی کی جانب سے ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تنظیم کی جانب سے صوبائی حکومت کو لاپتہ افراد کے کیسز فراہم کرنے کا سلسلہ جاری ہے اب تک 305 لاپتہ افراد کی کیسز تنظیم نے صوبائی حکومت کو فراہم کر دیا ہے، تنظیم کی لسٹ سے 80 لاپتہ افراد بازیاب ہوئے ہیں۔
مزید کہا گیا ہے کہ تنظیم کو جتنی نئی جبری گمشدگیوں کی شکایات لواحقین کی جانب سے موصول ہوئی ہے۔ تنظیم نے وہ کیسز بھی حکومت کو فراہم کر دیا ہے اور امید کرتے ہیں کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے صوبائی حکومت نے تنظیم کے ساتھ جو وعدہ کیا ہے، وہ ضرور پورا کریگی اور جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو ملکی قوانین کے مطابق حل کریگی۔