دی بلوچستان پوسٹ نمائندہ کوئٹہ کے مطابق بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے لاپتہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف احتجاج کو 3573 دن مکمل ہوگئے ۔ پی ٹی ایم کے عہدیدار و کارکنان نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ لاپتہ افراد کے لواحقین نے کیمپ آخراپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے عہدیدار ڈاکٹر سید نور احمد شاہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس ریاست میں بلوچ اور پشتون پر ظلم و زیادتی ہورہی ہے ، ماما قدیر کے بقول 45 ہزار افرادغائب کیئے گئے ہیں اس لحاظ سے دیکھے تو ان کے خاندان کے افراد پر کیا گزر رہی ہوگی ۔ یہاں پر حکمران بلند و بانگ دعوے کررہے ہوتے ہیں لیکن روڈ، نالی یا میٹروہ میں نہیں چاہیئے، ہمیں زندگی چاہیئے ۔ یہاں زندگی کا یہ عالم ہے کہ سفید ریش ماما قدیر جنہیں آج گھر میں ہونا چاہیئے تھا یہاں بیٹھ کر کسی میگا پراجیکٹ، گورنمنٹ ٹینڈر یا ملازمتوں کی نہیں بلکہ زندگی کی بات کررہا ہے۔ یہ سفید ریش ہزاروں افراد کے خاندان، ماں بہنوں کی زندگی کی بات کررہا ہے مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے اغواء شدہ لوگ ہزاروں میں ہے لیکن ان میں سے بہت کم تعداد کو رہا کیا جارہا ہے ۔
انہوں نے کہا تمام علاقائی و بین الاقوامی اداروں سے ہماری گزارش ہے کہ جتنے بھی بلوچ یا پشتون لاپتہ افراد ہے ان کو بازیاب کرانے میں کردار ادار کریں ۔ ان افراد میں اگر کوئی قصوروار ہے تو اس کو عدالت پیش کرکے قوانین کے تحت سزا دی جائے اور اگر انہیں صرف اس وجہ سے لاپتہ کیا گیا ہے کہ انہوں نے حق کی بات کی ہے یا انہوں نے ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کی ہے تو یہ نا انصافی ہے ۔
ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فورسز کی سفاکانہ کاروائیوں کی گواہی پوری دنیا دے کر اس کی فوری روک تھام پر زور دے رہی ہے مگر ریاستی فورسز اور حکمران قوتیں اس قدر بہرے ہوچکے ہیں کہ انہیں کسی کی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے ۔ پاکستانی فورسز فوجی کاروائیوں میں مکران بیلٹ کو شدید نشانہ بنارہے ہیں یہی کیفیت اگرچہ کوہلو، ڈیرہ بگٹی اور دیگر علاقوں کی ہے لیکن گذشتہ کچھ عرصے سے مکران میں بلا توقف پے درپے فوجی کاروائیوں کا سلسلہ جاری ہے جس میں خواتین و بچوں کی بڑی تعداد کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔
انہوں نے کہا پاکستانی جمہوریت اور انسانی حقوق کے دعویدار تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں، لبرل، دانشور حلقے اور میڈیا بلوچستان میں ہونے والے ظلم و جبر پر مکمل خاموش ہیں ۔ پاکستانی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ جیسے بلوچستان میں امن، ترقی و خوشحالی کا دور دورہ ہے اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہے لیکن انہیں بلوچ قوم کی اپنی ہی سرزمین پر بہایا جانے والا خون، ریاست کی لگائی گئی آگ کئی دکھائی نہیں دیتی ہے جبکہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے یہ دعویدار فوجی کاروائیوں سے آنکھیں بند کیئے ہوئے ہیں ایسی صورتحال میں بلوچ حق بجانب ہے کہ وہ بین الاقوامی عدل و انصاف کے اداروں اور عالمی برادری سے رجوع کرے ۔
احتجاجی کیمپ میں موجود لاپتہ امتیاز احمد لہڑی کے لواحقین نے کہا امتیاز احمد کو 9 جون 2018 کو سریاب روڈ کوئٹہ سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے جس کے بعد ان کے حوالے کوئی معلومات نہیں مل سکی ہے۔ انہوں نے کئی ہم گذشتہ کئی مہینوں نے پریس کلب کے سامنے احتجاج کررہے ہیں لیکن ہماری آواز کوئی نہیں سن رہا ہے۔
یاد رہے گذشتہ روز کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ عبدالحئ اور دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا تھا جس میں سماجی و سیاسی کارکنان اور لاپتہ افراد کے لواحقین نے شرکت کی تھی۔
عبدالحئی کرد کے لواحقین کے مطابق انہیں 21 مئی 2018 کو بولان کے علاقے مچھ میں گھر سے فرنٹیئر کور اور سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد اٹھا کر لے گئے جس کے بعد وہ تاحال لاپتہ ہے۔