کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3563 دن مکمل ہوگئے۔
انسانی حقوق کے کارکن حوران بلوچ، مادیم بلوچ، شالا بلوچ سمیت دیگر نے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی ۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس مزاحمت اور پرامن احتجاج میں تینوں صوبوں کے اندر خواتین کی ایک بڑی تعداد مردوں کے شانہ بشانہ میدان میں آگئی ہیں ہم ان ماں بہنوں کو سلام پیش کرتے ہیں جو اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں ، ریاست اور ان کے ادارے جتنی بھی فسطائی رویہ اختیار کریں عوامی مزاحمت ختم نہیں ہوگی بلکہ بڑھتی جائے گی۔ ہٹلر، مسولینی، فرانکو ایران کے رضا شاہ پہلوی اور جنرل پنو شے نے اس طرح کے فسطائی رویے اختیار کیے لیکن ان ملکوں کے عوام نے انہیں خودکشی کرنے اور ملک سے بھاگنے پر مجبور کیا، پاکستانی ریاستی اداروں کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے جو تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے ہیں وہ اس کے مکافات عمل کا شکار ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے اگر ریاستی ادارے ہی غیر قانونی اور غیر آئینی کام کریں تو عوام کے لیے آئین و قانون کی پاسداری کی توقع کیسے کی جائے گی۔ جنرل مشرف کے دور سے ریاست کی فسطائی رویے میں مزید شدت آ گئی ہے ، پہلے بلوچستان کے قومی کارکنان کو ٹارگٹ کلنگ، اغواء نما گرفتاری اور گمشدگیوں کا نشانہ بناکر ویرانوں میں ان کی لاشیں پھینک دی جاتی تھی اور اب انہیں اجتماعی قبروں میں دفنایا جاتا ہے، یہ عمل روز کا معمول بن چکا ہے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا سیکیورٹی اداروں کے دباو کے باعث اس پر رپورٹنگ اور ٹاک شوز میں ذکر کرنے سے قاصر ہیں۔
وی بی ایم پی کے مطابق جولائی 2014 کو ماشکیل ٹاون سے جبری طور پر لاپتہ کئے گئے زاہد ولد وزیر محمد، 5 مئی 2018 کو پنجگور بازار سے لاپتہ کیے گئے محمد اعظم ولد کمالان، 19 جنوری 2019 کو ضلع پنجگور سے ہوشاپ انٹر کالج کے فرسٹ ایئر کے طالبعلم حیات بلوچ ولد نظر محمد، مئی 2016 کو کراچی سے جبری طور پر لاپتہ کئے گئے سہیل احمد ولد عبدالطیف سکنہ سلو، بلیدہ ضلع کیچ، 21 مارچ 2017 کو دراکوپ گچک سے لاپتہ کئے گئے وشدل ولد فقیر محمد کی تفصیلات جمع کرکے کیس صوبائی حکومت کو فراہم کردی گئی ہے۔