وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ مشکے، آواران اور جھاؤ میں جاری پاکستانی فورسز کی کاروائیاں تاحال جاری ہے، مشکے گجلی میں پاکستانی فورسز نے عام لوگوں کیلئے زندگی تنگ کی ہوئی ہے، خوراک ادویات سمیت ضروریات زندگی کا حصول انتہائی مشکل ہوچکا ہے عام لوگوں کی نقل و عمل انتہائی مشکل بنادی گئی ہے۔
انہوں نے کہا مشکے، آواران اور جھاؤ کی انتہائی تشویشناک صورتحال بلوچستان میں جاری بلوچ نسل کشی کا حصہ ہے جس کے دوران اب تک پاکستانی فورسز مسلسل بلوچ آبادیوں کے خلاف دہشتگردانہ کاروائیاں کرکے عام بلوچ بزرگ، خواتین اور بچوں کو لاپتہ کیا جارہا ہے جبکہ یہ تسلسل تاحال جاری ہے اس صورتحال میں پاکستان جیسے دہشتگرد ملک کو چین ، سعودی عرب کی امداد اور تعاون کی فراہمی تشویشناک ہے جس سے پاکستان بلوچستان میں جاری نسل کشی کے خلاف اپنا کردار ادا کرنا انسانی حقوق کے علمبردار تنظیموں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ بلوچستان میں ہر قسم کی معمولات زندگی معطل ہوئی ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا مذکورہ علاقوں میں فوجی آپریشنوں کے دوران گن شپ ہیلی کاپٹروں کا استعمال چین کے امداد کے بل بوتے پر کیا جارہا ہے۔ پاکستان طالبان اور دہشتگردی کے خلاف کاروائیوں کے نام پر عالمی برادری سے حاصل کرنے والی امداد کو بلوچ عوام کے خلاف استعمال کررہا ہے۔ اگر عالمی امداد اسی طرح جاری رہا تو بلوچستان میں پاکستان کی دہشتگردانہ کاروائیاں مزید شدید ہوتی جائینگی ہم پاکستان کو امداد دیئے جانیوالے ممالک سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنی امداد شفاف بنائیں اور پاکستان کو عالمی امداد بلوچ قوم کے خلاف استعمال کرنے سے روکھیں، تمام عالمی انسانی حقوق کے ادارے اور میڈیا بلوچستان میں جاری پاکستان کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دنیا کے سامنے لائیں۔
دریں اثناء وی بی ایم پی کی جانب سے لاپتہ محمد رمضان کے کوائف جمع کیئے گئے۔
لواحقین کے مطابق محمد رمضان ولد صالح محمد سکنہ حب کو 11جنوری 2011کو فرنٹیئر کور اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے ان کے دوست ولی محمد کے ہمراہ حراست میں لیکرنامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا اور بعد میں ولی محمد کو رہا کردیا گیا لیکن محمد رمضان تاحال لاپتہ ہے جبکہ ان کی جبری گمشدگی کے حوالے سے حب سٹی تھانہ میں بھی رپورٹ کی گئی تھی۔