احتجاجی کیمپ میں موجود جبری طور پر لاپتہ عبدالحئی کرد کی بہن نے کہا کہ شدید بارش میں اپنے بھائی کی بازیابی کے لیے احتجاج کیمپ آئی ہوں، موسم کی خرابی کے باعث احتجاج کیمپ گرگئی تھی لیکن پھر بھی ہم نے ماما قدیر بلوچ کی سربراہی میں اپنا احتجاج جاری رکھا۔ عبدالحئی کرد گیارہ مہینے سے جبری طور پر لاپتہ ہے ان کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں مل سکی ہے کہ وہ کہاں اور کس حالت میں ہے۔
عبدالحئی کرد کی ہمشیرہ نے عندیہ دیا کہ اگر میرے بھائی کو منظر عام پر نہیں لایا گیا تو احتجاجاً سخت اٹھانے پر مجبور ہونگی لہٰذا میں بلوچستان حکومت سمیت دیگر حکام سے گزارش کرتی ہوں کہ میرے بھائی کو بازیاب کیا جائے۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقعے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بلوچ نسل کشی کو اپنے بقاء اور بالادستی کا آخری چارہ خیال کررہی ہے جس کا مظاہرہ بلوچ گدانوں، دیہاتوں اور شہروں میں آئے روز فوجی کاروائیوں اور بلوچ خواتین و بچوں سمیت ہر عمر اور ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بناکر کیا جارہا ہے۔ اس سفاکیت کا بدترین مظاہرہ سیاسی کارکنان، طلبہ، نوجوانوں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکنان سمیت دیگر کی اغواء نما گرفتاریوں اور گمشدگیوں کے بعد تشدد زدہ لاشوں کی ویرانوں سے انسانیت سوز المیوں کی صورت میں بھی سامنے آرہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ گذشتہ مہینوں میں کئی افراد لاپتہ کیئے گئے۔ ان تمام افراد کو ماورائے قانون حراست میں لیکر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کی یہ سفاکیت کئی سوالوں کو جنم دے رہی ہے۔ پاکستان ریڈ انڈین یا قدیم آسٹریلوی باشندوں کی طرح بلوچوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے یا صفحہ ہستی سے مٹانے کی خواہشمند ہے اوریہ عمل پاکستان کی بالادست طبقے کی بلوچ قوم کے خلاف گہری نفرت کو بھی آشکار کرتی ہے۔