چُٹوک کی خوشیاں ضرور بحال ہونگی -سمیر جیئند بلوچ

471

چُٹوک کی خوشیاں ضرور بحال ہونگی

تحریر: سمیر جیئند بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

وادیٗ مشکے کا مشہور دریا تنک جو درہ مولہ کی طرح سالہا سال بہتا رہتا ہے اور جہاں جہاں سے اس کا گذر ہوتاہے، وہاں زراعت کے زریعے ہریالی پھیلاتا ہوا مشکے ندی میں گرتاہے۔ وہاں سے ہوتاہوا وادی مشکے کے سرسبز علاقے بھنڈکی اور منگلی کے خوبصورت باغات کو سیرا ب کرتے ہوئے آواران کے خوبصورت کور بینٹ جوکہ شہید ساکا جان کی وادی ہے، حسن بخشتے ہوئے اللہ بخش بینٹ سے ٹھاٹیں مارتاہوا شہید نوربخش عرف دل جان شہید اور شہید شبیر جان کے خوبصورت بینٹ جھکرو پہنچ جاتاہے۔ آواران شہر کو چیرتے ہوئے شہید میرک بلوچ اور شہید پٹھان عرف سالار کے حسین وادی پھاؤ کو سرسبز و شاداب کرتے ہوئے جھاؤ نال کور میں داخل ہوکر پسنی اور اورماڑہ کے ساحل پہنچ کر سمندر میں داخل ہوجاتاہے۔

بات تنک ندی کی ہورہی تھی تو تنک کوؤر میں ویسے بے شمار خوبصورت ندیاں آکر اس میں شامل ہوجاتے ہیں، ادھر مشرق شمال کی جانب سے راغے ندی جو شہید ہیبتان، شہید جمعہ، شہید ابوپاس سمیت دسیوں بلوچ سرمچار شہیدوں کی حسین وادی ہے سے نکل کر مغرب کی جانب سفر کرتے ہوئے تنک ندی میں ٹوبہ کے مقام جہاں شہید کھیا جان مادروطن پر امر ہوئے، ملتاہے۔ اسی طرح جنوب کی طرف سے سولیر کور جوکہ شہید غلام قادر اور شہید اکرم جان ولد ملا عیسیٰ جان کے جوان سال بیٹے کے شہادت کے دن تک مسکن رہاہے، آکر تنک ہی میں ٹوبہ ہی کے مقام پر شامل ہوتاہے۔ جبکہ اس کے علاوہ چٹوک کی حسین ندی بھی مغرب کی جانب سے بارش کے موسم میں ٹھاٹھیں مارتے ہوئے تنک ندی میں وہیں سے داخل ہوتا ہے، جہاں شہید عبدالخالق عرف سردار اور شہید پیٹر جان شہید، کئی پاکستانی فوج کے اہلکاروں کو جہنم پہنچاتے ہوئے خود اس جھڑپ میں شہید ہوئے تھے داخل ہوتاہے۔ چٹوک کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے ندی میں بلوچ تاریخ کے نامی گرامی پہاڑ جوکہ”میری“ کے نام سے مشہور ہے اور بلوچ آزادی کی جنگ میں کہا جاتاہے کہ جو بھی آزادی کی تحریک جب بھی چِھڑی ہے تو یہ پہاڑ بلوچ سرمچاروں شہید اسلم جان گچکی یا دوسرے بلوچ شہداء اور سرمچاروں کا مسکن رہاہے، اسکا پانی بھی پہلے چٹوک پھر تنک اور مشکے کورمیں داخل ہوتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ”میری“ کا پانی بارش میں چاروں اطراف یعنی مشرق، مغرب، شمال، جنوب یعنی ہر طرف سے بہتاہے۔

میری کی دوسری بڑی ندی پسہیل کے نام سے جانا جاتاہے جوکہ بشیربلوچ کے اکلوتے جوان سال شہید بیٹے کا آبائی علاقہ ہے، یہ ندی مغرب کی جانب بہتے ہوئے دراسکی ندی میں شامل ہوتاہے۔ میری کے تمام ندیوں میں سے چٹوک کو میری نظر میں تین اعزازات حاصل ہیں، ایک اسکی خوبصورتی پِیش کے جنگلات کیوجہ سے تو دوسری طرف اسکے بے حساب آبشاروں کی روانی کا حسن اور اسی نسبت سے اسے چٹوک (جہاں سے پانی قطروں کی شکل میں گرتی ہو)کہا جاتاہے۔ چٹوک امن کے زمانوں میں وادی مشکے، آواران اور اردگرد کے علاقوں گچک (جوکہ شہید اسد یوسف کا آبائی علاقہ ہے،) حتیٰ کہ شہید ٹھیکدار یونس، شہید حمید جان عرف جمال اور شہید نصیر جان عرف حاجی سمیت دسیوں شہداء کی سرزمین پنجگور کا مشہور پکنک پوائنٹ رہاہے اور تیسری اہم اور بڑی اس کی وجہ شہرت یہ کہ اسی ندی میں پاکستان کے وحشی آرمی نے ۳۷۹۱ء سے لیکر اب تک وحشت اور بربریت کے ذریعے یہاں کے معصوم باسیوں کو خون کے آنسو رلاتا آ رہاہے۔ جب ہم قابض فوج کی بربریت کے دوعشروں پر محیط وقت پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں یہ ندی اپنے باسیوں کیلئے خون کے آنسوؤں میں نہلاتا نظر آتاہے۔

تہتر کے فوجی بربریت کے بعد۷۰۰۲ء کے خونی آپریشن میں آرمی اور اسکے وحشی فوج نے،چٹوک سے عبدالحکیم کے جوان سال بیٹے شاہ میر اور شہباز خان کے علاوہ دسیوں علاقہ مکینوں سمیت میر ساہو کے بڑے بھائی دینار خان کو گرفتار کرکے ایک ماہ کے اذیت اور ٹارچر کے بعد پنجگور میں ہی چھوڑ دیا تھا۔ اس خونی آپریشن کے بعد فوج کی آنکھ مچولی جاری رہی، زمینی فوج کے علاوہ یہ علاقہ ہر وقت جنگی ہیلی کاپٹروں اور جیٹ جہازوں سمیت جاسوس جہازوں کے گردش اور وحشت پھیلانے کا اڈھ اور ہیلی کاپٹروں کے شیلنگ کے زد میں رہاہے۔ مگر اس وقت تک انھیں کوئی کامیابی نصیب نہیں ہوئی ہے۔ بلآخر جنگی ہیلی کاپٹروں اور جیٹ اورجاسوس جہازوں نے سرمچاروں کا کوئی ٹھکانہ ہاتھ نہ آنے پر تنگ آکر اپنی شرمندگی چھپانے کیلئے ۲۱۰۲ء کے ایک سیاہ دن کو چٹوک ندی میں میر ساہو کے محلے کو بمباری کا نشانہ بنادیا جوکہ تیس چالیس جھونپڑیوں پر مشتمل تھی، اس خون ریز بمباری میں سات افراد شہید اور بارہ خواتین اور بچے زخمی ہوئے۔ شہید ہونے والوں میں میر ساہو کے بڑے بھائی علی خان کی زوجہ محترمہ جنکی عمر ساٹھ سال تھی، میر کی بہن اپنے جوان سال بیٹے خدابخش سمیت، میر کی زوجہ محترمہ صد گنج اپنے جوان سال بیٹے علی جان،اور اپنے بہو زوجہ کھٹوک اور اپنے دیوردینار کی چارسالہ بیٹی بختی سمیت شہید ہوئیں۔ جبکہ میر ساہوکے ایک بھائی پچاس سالہ بدل خان شدید زخمی ہوئے اوربعد میں ایک ٹانگ سے عمر بھر کیلئے اپاہچ ہوگئے۔ اسکے علاوہ دینار خان کا ایک پندرہ سالہ بیٹا زخمی ہوکر ذہنی توازن کھوبیٹھے، ان سمیت دیگر گھرکے دس خواتین اور معصوم بچے معمولی زخمی ہوئے۔

اس واقعے کے بعد میر کے بھائی دینار خان جوکہ خود ۷۰۰۲ء میں فوج کے عقوبت خانوں میں ٹارچر کے بعد جسمانی مفلوج تھے، دل کا دورہ پڑنے سے وفات پاگئے۔ اس سانحے کے بعد۸۱۰۲ء میں ایک اور فوجی آپریشن میں فوج نے میر ساہو کے گھر کے چارخواتین کو تنک میں اس وقت گرفتار کرکے اپنے کیمپ پہنچادیا، جب وہ گھر کے دو مردوں کے ساتھ مشکے شہر تعزیت کیلئے جارہی تھیں۔ چھ ماہ بعد میر کے دو بھتیجے پھر تنک ہی سے آرمی نے گرفتار کرکے غائب کردیئے۔ یہ مصیبت اب تک ٹلا ہی نہیں تھا کہ کل پھر تنک ہی میں میر ساہو کے بھائی عمرجان جن کا عمر تقریباً پینسٹھ سال ہے، جوان سال بیٹے شعیب اور بھانجے بہرام خان ولد علی خان کے ہمراہ فوج کے ہاتھو ں اس وقت اٹھائے گئے، جب وہ اپنے ریوڑ چرا رہے تھے۔ گرفتاری بعد حسب معمول یہ تینوں افراد نامعلوم جگہ منتقل کئے گئے۔

اس وقت چٹوک کی حسین اور غم سے نڈھال ندی اپنے باسیوں سمیت ایک بار پھر خون کے آنسو پونچنے پر مجبور ہوکر اپنے پیاروں کی راہ تکتی ہے، جو سالوں سے یہ لاڈلے اسی ندی میں اپنا مال مویشی اور بچوں سمیت آنکھ کھول کر درد اور غموں کے ساتھ جینے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہماری دعائیں میر ساہو اور اسکے پریوار کے ساتھ ہیں، جنھوں نے سرزمین کی خاطر بلوچ ہونے کے ناطے اتنے درد سہے۔ امید قوی ہے انشاء اللہ شہداء اور دشمن کا ٹارچر سہنے والے سرزمین کے ان معصوم باسیوں کا خون اور اذیتیں رنگ لاکر چٹوک کی پھر وہ خوشیاں آزاد بلوچستان کی صورت میں لٹا دینگے اور چٹوک ندی پھر پکنک اور خوشیوں کا آماجگاہ بن کر شہداء کا نام روشن کرے گا۔ جہاں ہزاروں لوگ اپنے ان معصوم خواتین وحضرات سمیت چار سالہ معصوم بختی شہید کی قبروں پر حاضری دیں گے، جنھیں محض دشمن نے بلوچ ہونے کے ناطے شہید کردیاتھا۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔