پاکستان میں صحافی کے خلاف ’سائبر دہشت گردی‘ کے مقدمے پر عالمی ادارے کی تنقید

166

میڈیا نگرانی کے عالمی ادارے رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے ’پاکستانی صحافیوں کو خوفزدہ‘ کرنے کی کوششوں پر تنقید کی اور کہا ہے کہ ریاستی اداروں پر تنقید کرنے والے صحافیوں پر ’سائبر دہشت گردی‘ کا مقدمہ چلایا جارہا ہے۔

عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ دنیا نیوز سے وابستہ صحافی، جو برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اور جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے سے وابستہ رہ چکے ہیں، برقی جرائم کے قانون اور کرمنل کوڈ کی دفعات کے تحت الزامات کا سامنا کررہے ہیں۔

ان الزامات میں ’پاکستان کے قابلِ احترام اداروں کے خلاف ہتک آمیز ریمارکس‘ اور ’سائبر دہشت گردی‘ شامل ہیں اور عالمی تنظیم نے کراچی کی عدالت سے مطالبہ کیا کہ ان الزامات کو مسترد کیا جائے۔

اس بارے میں آر ایس ایف ایشیا پیسِفک ڈیسک کے سربراہ ڈینئل بسٹارڈ نے کہا کہ ’پاکستانی حکام مخصوص اداروں پر تنقید کی جرأت کرنے والے صحافیوں کو خاموش کرنے کے لیے ایک مرتبہ پھر قانون کا استعمال کررہے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی سے ایک اور صحافی لاپتہ

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ دیکھنا صدمے کا باعث ہے کہ کس طرح آہستہ آہستہ پاکستانی ادارے ملازمین پر سختی کر کے پورے میڈیا کے پیشے کو خوفزدہ کر کے از خود سینسر شپ پر مجبور کررہے ہیں‘۔

عالمی ادارے کا مزید کہنا تھا کہ ’ریاستی اداروں پر تنقید ہمیشہ سے ملک کے ذرائع ابلاغ کے لیے ایک ممنوعہ موضوع رہا ہے، اگر انہوں نے یہ سرخ سرحد عبور کی تو صحافیوں اور بلاگرز کو مختلف طریقوں سے خوفزدہ کرنے کی کوششوں کی شکایات سامنے آتی ہیں جن میں اغوا، تشدد حتیٰ کے قتل بھی شامل ہے‘۔

مزید پڑھیں: بلوچستان کے ضلع آواران سے بلوچ صحافی حاصل حسرت 5 سالوں سے لاپتہ

خیال رہے کہ امریکی صحافتی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے ستمبر 2018 میں اپنی جاری کردہ رپورٹ میں سیکیورٹی اداروں پر ’رپورٹنگ پر خاموشی سے مؤثر پابندیاں‘ لگانے کا الزام لگایا تھا۔

واضح رہے کہ شاہ زیب جیلانی کے خلاف درخواست میں 2017 میں دنیا ٹی وی کے ایک پروگرام کے دوران حساس اداروں کے خلاف نامناسب ریمارکس دینے اور وہی ریمارکس دوبارہ 2019 میں دہرانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

فرانسیسی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق درخواست پر ابتدائی پولیس رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ شاہ زیب جیلانی نے اپنی ٹوئٹ میں ریاستی ادارے اور اس کے سربراہ کے خلاف ’تضحیک آمیز، حقارت آمیز، بدتہذیبی اور ہتک آمیز زبان استعمال کی‘۔

پولیس رپورٹ میں کہا گیا کہ مذکورہ ٹوئٹ ’عوام، معاشرے اور ریاستی اداروں میں عدم تحفظ اور خوف کی لہر پیدا کرنے کے مترادف ہے‘۔