پاکستانی دہشتگردی سے بچنے کا واحد راستہ آزادی
تحریر: نود شنز بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کوئٹہ ہزار گنجی میں افسوس ناک واقعے کی جتنی بھی مذمت کریں کم ہے، یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ اس طرح کا واقعہ پیش آیا ہو کہ ہزارہ برادری پر حملہ ہوا ہو۔ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کی دو بستیاں ہیں جن میں لگ بھگ چارلاکھ افراد آباد ہیں۔ آج کل ہزارہ برادری کے لوگ دہشتگردانہ کاروائیوں کی وجہ سے اپنے ہی گھروں میں قیدی بن کر رہ گئے ہیں۔
بلوچستان میں گذشتہ چند برسوں کے دوران ہزارہ برادری کے لوگوں پر دہشتگرد تنظیموں کی طرف سے متعدد خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعےاس برادری کے افراد کو ہدف بنا کر بھی قتل کیا جاتا رہا۔ ان حملوں میں مرد و خواتین اور بچوں سمیت سینکڑوں لوگ جان کی بازی ہار چکے ہیں اور انہی دہشتگردانہ کاروائیوں کے خلاف اکثر ہزارہ برادری کے لوگ سراپااحتجاج ہوتے ہیں، 13جنوری 2013کو علمدار روڑ پر اسی طرح کے دہشتگردانہ واقعہ میں جب ساٹھ سے اوپر لوگ مارے گئے تو ہزارہ برادری کے احتجاج پر بلوچستان اسمبلی اسلم رئیسانی کی حکومت کو اس وقت کے صدر آصف زرداری کے سفارس پر ختم کرکے 60 روزہ گورنر راج بھی نافذ کیا گیا۔ اس کے بعد 18فروری2013کو اس وقت کے وفاقی وزیر مذہبی امور خورشید شاہ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ میں ہزارہ برادری پر حملہ انٹیلی جنس کی ناکامی ہے، فوج کی تعیناتی مسئلے کاحل نہیں۔
پھر بھی ہزارہ برادری پر حملے ختم ہونے کے نام ہی نہیں لے رہے تھے، لوگوں کو مارنا بیچارے ہزارہ برادری کا اپنے لاشوں کو لے کر سڑکوں پہ آنا، عام سی بات ہوگئی تھی اور 29 اپريل 2018کو جلیلہ حیدر تادم مرگ بھوک ہڑتال پہ بیٹھی اور جلیلہ حیدر نے یہ ڈیمانڈ رکھا کہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ آکر انہیں یہ گارنٹی دے کہ یہ سب چیزیں ختم ہونگے، وہ اٹھ جائینگی، اس ڈیمانڈ سے یہی بات ثابت ہوتا ہے کہ ہزارہ برادری جانتی ہے کہ انہیں کون مار رہا ہے اور کیوں کئی مرتبہ یہ سوال ذہنوں میں اٹھتا ہے، کیا یہ فرقہ واریت کا نشانہ بن رہے ہیں؟ یا کوئی اور مسئلہ ہے؟ اگر ہم اپنے اردگرد ذرا ہلکی سی نظر دوڑائیں تو ہمیں صاف صاف اپنے تمام سوالات کا جواب مل سکتا ہے۔ کوئٹہ جیسے شہر میں جہاں ہر پانچ کلومیٹر پر ایف سی اور آرمی کے چوکیاں اور فوجیاں تعینات ہے، پولیس اور دوسرے ادارے آپ کو ہر قدم پہ مل جائینگے اگر کوئی بلوچ رہنما اور سیاسی کارکن کوئٹہ جیسے شہر میں جب داخل ہوجائے اسے پکڑنے میں بیس منٹ پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسیاں نہیں لگاتے ہیں اور یہ دہشتگرد جو باآسانی آکر سبزی منڈیوں یا سرعام بازاروں میں کیسے بارود رکھ کر یا ٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، ان تمام چیزوں کے پیچھے ہر بچہ بچہ جانتا ہے پاکستانی فوج اور اس کے خفیہ ایجنسیاں ہیں۔
آج پوری دنیا جانتی ہے کہ ہزارہ برادری کو ٹارگٹ کرنے والا گروہ دہشگرد تنظیم لشکر جھنگوی ہے اور اس کا سربراہ رمضان مینگل ہے اور اسی رمضان مینگل کو پاکستانی فوج سیکورٹی دیتا ہے اور اسی ہزار گنجی کے واقعے کے چند ہی دن پہلے رمضان مینگل کا دکھاؤ کے لئے جو نظر بندی کیا گیا تھا وہ ختم کیا گیا۔
یہ تمام چیزیں کیا ہیں؟ جب بھی رمضان مینگل سامنے آجاتا ہے، ہزارہ برادری پہ حملے ہوتے ہیں اور ایک سوال ذہن میں آ جاتا ہے، پاکستان میں جتنی بھی اس طرح کی کاروائیاں ہوتی ہیں، ان کا ہدف پشتون بلوچ ہزارہ مہاجر کیوں ہوتے ہیں، پاکستان میں جتنے بھی بڑے حملے ہوئے ہیں، ان میں یہی لوگ مرے ہیں، چاہے وہ آرمی پبلک اسکول ہو یا علمدار روڑ ہو یا پولیس ٹرینگ سنٹر کوئٹہ کا ہو ان تمام کاروائیوں میں صرف یہی لوگ مرے ہیں، پشتون بلوچ اور ہزارہ، آپ جاکر 2008سے 2013تک اس وقت پاکستان میں جو روزانہ کی بنیاد پہ بم بلاسٹ اور خودکش حملے ہوتے رہتے تھے کو دیکھیں، ان دھماکوں میں زیادہ تر نشانہ پشتون، بلوچ، سندھی اور ہزارہ کو بنایا گیا اور ان کے ختم کرنے کے لئے دکھاؤ ضرب عضب لانچ کیا گیا۔ وہاں بھی بے گناہ پشتون مارے گئے، ان تمام چیزوں کے گواہ پاکستان کے معروف صحافی حامد میر خود ہیں، جو ضرب عضب کو کوریج کرنے گیا تھا اور اس نے رپورٹ بھی کیا تھا ایک شو میں ٹیلی فون سے یہی گفتگو بھی کر رہے تھے، جی یہاں ضرب عضب کے نام پر بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور جو دہشگرد ہیں ان کے کیمپ موجود ہیں، انہیں کوئی نشانہ نہیں بنایا جارہا ہے۔
جب پولیس ٹرینگ سنٹر پہ حملہ ہوا اس کے بدلے آپریشن ردالفساد لانچ کیا گیا، آج تک اس آپریشن میں آپ مجھے ایک ایسا واقعہ بتائیں جس میں کوئی دہشتگرد مارا گیا ہو؟ ہاں بلوچوں کے بستیاں جلائے گئے ہیں، بلوچوں کو اغواء کرکے پھر انکی لاشیں ویرانوں میں پیھنکے گئے ہیں اور انہیں لاوارث قرار دے کر دفنایا بھی گیا۔
یہ تمام چیزیں یہی ظاہر کرتے ہیں کہ یہاں جو بھی ہوتا ہے، اس کے پیچھے یہ وردی ہے اور وردی والے دہشتگردی سے اگر یہ تمام قوم اور فرقے بچنا چاہتے ہیں، تو پاکستان کے خلاف جنگ شروع کریں اور اپنے آزادی کے لئے جدوجہد شروع کریں۔ یہ جو پشتون خاص کر پی ٹی ایم والے جو آئین کی بحالی اور بنیادی حقوق کی باتیں کرتے ہیں، یہ تمام چیزیں صحیح معنوں میں اپنے قوم کو دھوکہ دینے کا مترادف ہے اور پاکستان میں حقوق نامی چیز ہے ہی نہیں۔ وہ صرف اور صرف آزادی کی صورت میں مل سکتی ہے دوسرا کوئی راستہ بچا ہی نہیں ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔