وقت کا تقاضہ، حقیقی مخلصی
تحریر: خالد شریف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بہت کم لوگ ہوتے ہیں، جو اپنی ذات سے نکل کر صرف انسانیت و اپنے قوم اور اپنے وطن کیلئے ہر طرح کی قربانی دینے کیلئے تیار ہوتے ہیں ـ تاریخ بھی ایسے ہی لوگوں سے بنتی ہے، یہ دنیا کے وہ عظیم لوگ ہیں جو صرف اور صرف انسانیت کے ناطے قربانی دیتے ہیں ـ کائنات کے کھربوں سیاروں میں سے زمین محض ایک معمولی سیارہ ہے، جس پر انسان کا وجود ہے۔ اگر ہم ایمانداری سے دیکھیں، یہ وہ سیارہ ہے، جو صرف مظلوموں کے خون سے لال ہے، ہمیشہ ظالم کی تلوار مظلوم اور بے بس کے سر ہوا کرتی ہے، زمین پر وجود تو انسان کا ہے لیکن انسانیت بہت کم لوگوں میں ہے ـ اگر تاریخ کے اوراق کو منطقی حوالے سے دیکھا جائے اور مشاہدہ کیا جائے تو ہمیشہ سے سامراجیت رہی ہے اور ظلم ہوا ہے ـ
جنگ ایک ایسی چیز ہے، جس کو اپنانا، انسان کی آخری مجبوری ہوتا ہے، جو انسان کو ایک سامراج و ظالم سے غلامی کی زنجیریں توڑنے میں مدد دیتا ہے ـ
غلامی ایک ایسا احساس ہے اگر وہ ایک انسان کو ہوجائے تو پھر وہ عَلم بغاوت بلند کرنے اور اپنی جان قربان کرنے سے نہیں کتراتا۔ ایسی غلامی کی ایک مثال آج ہماری قوم ہے، بلوچ قوم جو ستر سالوں سے اپنے آزاد و خود مختار ریاست کیلئے طرح طرح کی قربانی دے چکا ہے اور دے رہا ہے اور بلوچستان کی آزادی تک مزید دینا ہوگا، ان ستر سالوں میں جو کچھ بلوچ قوم پر بیتا ہے اُس کا احساس شاید پُورے قوم کو نہ ہو کیونکہ بلوچ قوم کے اندر کچھ ایسے بلوچ ہیں جو آستین کے سانپ ہیں ـ اور دنیا کے تاریخ میں بھی ایسا ہی ہوتا آرہا ہے، ہمیں ان بے ضمیروں سے نہ گلہ ہے نہ گلہ کرینگے کیونکہ دشمن تو پھر دشمن ہی ہوتا ہے، افسوس اس بات کی ہے جو بلوچ ستر سالوں سے اس جنگ کا حصہ رہےہیں یا ابھی اس موجودہ بلوچ تحریک کا حصہ ہیں جتنے بھی کمی کوتاہی اور غلطی ہوئے ہیں، کیا کبھی ہم اس بارے میں سنجیدہ ہوئے ہیں؟ کیا ہم اپنے غلطیوں پر کبھی بحث کرتےہیں؟ یا پھر ہمیں اپنے کمزوریوں کا ادراک ہے؟
اس طرح کے کمی کوتاہی اور کمزوریوں میں ہماری بلوچ قوم کی ماٰئیں بہنیں اور بیٹیاں بھی برابر کا شریک دار ہیں کیونکہ جب تک عورت ذات مرد کا کمک کار نہیں ہوتے، اُس وقت تک مرد ایک کمزور انسان ہوتا ہےـ وہ کہتے ہیں تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ انسان کی سب سے بڑی کمزوری اُس کی ماں ہوتی ہے، ان کی بہن، بیٹیاں ہوتی ہیں ـ شاہد میں ایک کمزور انسان ہوں اسلئے یہ سب بیان کر رہا ہوں کیونکہ میں نے بہت سے لوگ دیکھے ہیں، مائیں، بہنیں، بیٹیاں، اور بیویاں جو اپنے بیٹے، بھائی، باپ، اور شوہر کی کمزوری بنے ہیں ـ اور دوسری طرف میں نے دیکھا ہے شہید فدائی ریحان جان کی ماں لما یاسمین اور بہن عائشہ کی طرح بہت سے لوگ ہوتے ہیں، شہید ازل جان کی ماں ہو یا شہید رازق رازی کے، شہید درویش جان کی ماں ہو یا رئیس کی یا پھر شہید بابر جان کی ماں و بہن جسے بہادر عورت بھی ہیں ـ
یہ الگ بات ہے بلوچ قوم میں بہادر، نڈر، ایماندار، مخلص، انسان دوست، قوم دوست جنرل اُستاد اسلم بلوچ جیسے انسان بھی ہیں جو صرف اور صرف انسانیت و انصاف کی خاطر اپنے سب رشتے قربان کرسکتے ہیں ـ اپنے قوم کے ساتھ ظالم کے ظلم کو دیکھ کر اُس سے برداشت نہیں ہوتا تھا، اس نے بلوچ قومی تحریک کے تقاضوں کو محسوس کرکے، خوشی خوشی اپنے لخت جگر نوجوان بیٹے ریحان جان کو بلوچ قوم کیلئے قربان کردیا ـ اور پھر رازق ، ازل، رئیس، درویش، بابر، ریحان جیسے بہادر انسان بھی ہیں، جو اپنے قوم کیلئے اپنے سب مفاد، اپنے سب رشتے قربان کرتے ہیں ـ
ہمیں احساس ہونا چاہیئے کہ آج اگر ہم کچھ نہ کرینگے، تو یہ وقت ہمارے لیئے نہیں رکےگا، دنیا کے اپنے اپنے مفادات ہیں، اگر ہم کچھ نہیں کرینگے، نہ کوئی ہماری بات سنے گا، نہ کوئی ہمارے مسائل حل کریگا، ہمیں اپنے اپنے ذاتی مفادوں سے نکلنا ہوگا۔ وگرنہ ہم سے احتساب ہوگا، ان سب کا ذمہ دار ہم خود ہیں، خاص کر بلوچ جہدکار جو آج سب کچھ جان کر پھر بھی غیر سنجیدہ ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔