والدین کی عدم توجہ اور ریاستی ہتھکنڈے – احمد خان زہری

316

والدین کی عدم توجہ اور ریاستی ہتھکنڈے

تحریر : احمد خان زہری

دی بلوچستان پوسٹ

عموماً ہمارے معاشرے میں پیش آنے والے مختلف نقصانات جس میں (نوجوانوں کا نشے میں مبتلا ہوکر تعلیم سے دوری اختیار کر لینا اور ایسے شوق کا انتخاب کرنا جس میں صرف بربادی ہی بربادی نظر آتی ہو) پر کبھی نہ والدین کی توجہ رہی ہے اور نہ ہی کسی ادارے، انتظامیہ یا اساتذہ نے معاشرے کو ایسے اندھیروں میں پھینکنے والے نقصانات کے روک تھام کیلئے کوئی اقدامات اٹھائی ہیں-

ہماری غفلت معاشرے کی بربادی کا سبب بن رہی ہے، یہ خاموشی اختیار کرنا ایک بہت بڑے طوفان آنے کی نوید ہے- ہمارے نوجوان ہمارے سرمایہ و اثاثہ اور ہمارے مستقبل کے معمار ہیں- ہماری کافی امیدیں انہی نوجوانوں سے وابستہ ہیں- لیکن کیا ہم نے اپنے آنے والے کل کے لیئے ایسے چراغوں کو بجھنے سے بچانے کیلئے اور ان کو سیدھا راستہ دکھانے کی کوشش کی ہے؟ بالکل نہیں! کیونکہ ہم سب اپنے کھیل کود اور شوق و مشغلہ پورا کرنے میں ایسے مصروف و مگن ہوگئے ہیں کہ ہمارا گھر اجڑ بھی جائے تو پتہ تک نہیں چلتا-

کوئی چکور لڑوانے (ککوّ جنگ) میں مصروف ہے تو کوئی فٹبال میں نام کما رہا ہے- کوئی شکار کرکے پرندوں و نایاب جانوروں کی نسل کشی کرنے میں مصروف ہے تو کوئی کرکٹ میں بہترین کارکردگی ادا کرنے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے، لیکن اس بربادی کو روکنے کی طرف توجہ کون دے؟ اس معاشرے کی بربادی کے ذمہ دار ہم سب اسی معاشرے میں پلنے والے کسی بھی مسلک، فکر اور نظریئے سے تعلق رکھنے والے یہی افراد ہیں- ہم یہ نہ سمجھیں کہ زندگی صرف اپنے لیئے جینے کا نام ہے بلکہ زندگی دوسروں کے لیے خوشگوار ماحول، امن و شانتی پیدا کرنے اور معاشرے کو بربادی سے بچانے کا نام ہے-

ہماری خاموشی، لاپرواہی اور اندھی تقلید نے ہمیں آج قبائلی اور مذہبی جنگ میں مبتلا کرکے ہمیشہ کے لیئے گنگا، بہرہ اور اندھا کردیا ہے- ہم ان مسائل میں ایسے جکڑے ہوئے ہیں کہ اپنے نوجوانوں کو سنبھالنے کا خیال تک وہم و گمان میں نہیں آتا-

اس کے وجوہات کیا ہیں اور ان کے پیچھے حقائق کیا ہیں؟ ذرا غور سے پڑھنے سمجھنے کے بعد ان کے خلاف کاروائی یا ان کے روک تھام کیلئے اقدامات یا اپنے فرزندوں کو سنبھال کر معاشرے کی بہترین تشکیل میں اپنا حصہ ضرور ڈالیں، کیونکہ معاشرے کی خوشگوار فضا ہی میں ہمارے خوشیوں اور زندگی بہترین جینے کا راز پنہاں ہے –

ہمارے اس چھوٹے سے معاشرے کو اندھیروں میں دھکیلنے میں جہاد فی سبیل اللہ کا نعرہ لگانے والے ملا تو روزِ اول سے شامل ہیں، لیکن آج کچھ حقائق سے پردہ ہٹاکر کہنا چاہوں گا کہ ریاست و نام نہاد گروہوں کی منشا پورے کرنے کے لیئے مجاہدِ وقت بلوچ زادہ ریاض رئیس نوجوان نسل کو گمراہی کی طرف گامزن کرنے کو ہمدردی ظاہر کرکے معاشرے کے ہر فرد کی آنکھوں پر کالی پٹی باندھا پھر رہا ہے- نوجوان کو پیسے، نشے کی چیزیں، ہنڈا موٹر-سائیکل کی فراہمی، آئے روز پکنک کا خرچہ فراہم کرکے نوجوانوں کو تعلیم و شعور سے محروم کرکے، کس ہمدردی کا اظہار کر رہا ہے؟ جوکہ ہم والدین کے لیئے قابلِ تشویش ہے- اس سے زیادہ قابلِ تشویش، حیرانی اور بے چینی کی بات یہ ہے کہ یہ سب جاننے اور دیکھنے کے باوجود ہم نے انہی نام نہاد گروہوں کے سرغنہ سے رابطہ و تعلق رکھنے سے اپنے فرزندوں کو کبھی نہ روکا اور نہ ٹوکا- بلکہ ہم خود اپنی بربادی کو آواز دیتے ہوئے اپنے فرزندوں کو ایسے معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والے افراد کے ساتھ میل جول کی چھوٹ دی ہے-

شاید یہ سرغنہ بھی محمد تراسانی کی طرح کبھی کسی جرت مند اور بہادر بلوچ ورنا کے ہاتھوں اپنے کالے کرتوتوں کا بھینٹ چڑھ جائے، لیکن اس وقت ہمارے یہ نوجوان کہاں جائیں گے، کس سے سہارا لینگے اور کون ان کو سیدھا راستہ دکھائے گا اور کون ان کو بچانے کے لیے مدد کو آئے گا؟ کوئی بھی نہیں، بلکہ اس دن کوئی بھی سہارا نہیں بنے گا اور ہمارے یہ مستقبل کے معمار شعور و آگاہی اور تعلیم سے دور رہنے کی وجہ سے نشے میں مبتلا کسی سڑک پر بھیک مانگتے ہوئے پائے جائیں گے- اور اس دن ہم والدین معاشرے میں بدنامی کا تاج سر پر رکھ کر خودکشی کرنے پر مجبور ہونگے یا ہارٹ اٹیک کا شکار بَن کر بغیر گورو و کفن دھوپ میں پڑے ہوئے ملینگے-

ریاست کا وار ہمیشہ سے نوجوانوں پر مختلف طریقوں سے رہا ہے – اور اس بار ریاض رئیس کی سربراہی میں ہمارے معاشرے کا انتخاب کیا گیا ہے – کسی کو ڈرا دھمکا کر سیدھے راستے سے روکنا یا کسی کو لوریاں سناکر اپنے گرفت میں پھنسانا اور ان کو معاشرے کی بربادی کا وجہ بنا کر پیش کرنا جیسے مختلف عزائم رہے ہیں –

کچھ یوں ہمارے ساتھ بھی کئی عرصے سے ہورہا ہے اور ہم سمجھنے سے قاصر ہیں – ہمارے غریب نوجوانوں کو نشے کے لیے، ہُنڈا موٹرسائیکل اور اس کے پیٹرول کے لیئے پیسے کہاں سے فراہم ہوتے ہیں، اور یہی نوجوان ریاستی پیرول پر بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جاکر عیاشیاں اور موج مستی کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں- دوسرے نوجوانوں کو اس راستے کو اختیار کروانے کے لیئے ان سے دوستی کا بہانہ بنا کر ایسے گھناؤنے حرکات و اعمال کا مرتکب کرواتے ہیں – شراب، چرس اور بیئر فراہم کرکے بے گناہ لوگوں کے قتل میں ملوث کرواکر ریاست اور یہ نام نہاد نواب ہمارے نوجوانوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنا کامیاب ایجنڈہ پورا ہونے پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں، اور ہم والدین …؟

ہم والدین صرف اپنے انہی نوجوانوں کے ایسے برے اعمال میں شامل ہونے کا پتہ چلتے ہی ماتم کرکے کسی دن خودکشی یا ہارٹ اٹیک کا شکار بن کر اپنے خاندان کو بے سہارا چھوڑ کر ہمیشہ سکون کی نیند سو جاتے ہیں- آخر ایسا کیوں اور کب تک؟

اگر روزِ اول سے ہم نے ریاستی و نوابی ہتھکنڈوں میں ملوث اپنے فرزندوں کو روکا ہوتا تو آج بدنامی کی موت سے شاید بچ جاتے- ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سے والدین کی مثال ہمارے نظروں سے گذری ہے جو اپنے بیٹے کے جھوٹے جہاد پر جانے کی وجہ سے ہارٹ اٹیک سے مر گئے ہوں- اپنے بیٹے کے نشے میں مبتلا ہوکر سیاہ کاری کے الزام میں پھنسنے میں بدنامی سے بچنے کے لیے والد نے خودکشی کی ہو- نوابوں اور ریاست کے ان کالے کرتوتوں کی وجہ سے کہیں نہ کہیں ہمارے ساتھ ایسا واقعہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے آج کچھ والدین معاشرے میں منہ دکھانے کے لائق نہیں رہے ہیں- اور اس کی وجہ صرف اور صرف ہماری لاپرواہی اور عدم توجہی ہے- جس کی سزا ہم آج تو بھگت رہے ہیں بلکہ آنے والے دور میں بھی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں- المیہ یہ نہیں کہ آج کے نوجوان بگڑ رہے ہیں بلکہ المیہ یہ ہے کہ کل کے نوجوانوں کو بگڑے ہوئے باپ ملینگے-

لہٰذا اپنے گھر معاشرہ اور بہترین مستقبل کے لیے اپنے نوجوانوں کو لگام لگاکر ایسے افراد سے دور رکھنا ہوگا، جو ہمارے کل کو تباہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں اور دشمن ریاست سے پیسے وصول کرکے ہماری تباہی میں استعمال کرتے ہیں –

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔