میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں
تحریر: حکیم واڈیلہ
دی بلوچستان پوسٹ
گذشتہ دن ہم نے پھر طاہر ہزارہ اور جلیلہ حیدر کو یہ کہتے سنا کہ ہمارا قاتل فوج ہے۔ آرمی کی پشت پناہی میں ہزارہ نسل کشی کی جارہی ہے۔ یہ درد بھری آوازیں گذشتہ دن کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی سبزی منڈی میں ہونے والے ایک خودکش دھماکے کے بعد سنی گئیں، جس میں اکثریت ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے لوگ شہید ہوئے۔ اس حملے کا شکار بلوچ و پشتون عوام بھی بنے، سولہ افراد جو اس حملے کا شکار بنے ان میں ایک ایف سی اہلکار بھی شامل تھا۔ جسے شائد پاکستانی فوج کولیٹرل ڈیمج سمجھ کر بھلا بھی دینگے کیونکہ وہاں موجود تمام لوگ جانتے ہیں اور کہتے بھی ہیں کہ انکی نسل کشی کے پیچھے کونسی قوتیں کارفرما ہیں۔
گذشتہ دنوں (ہزارہ نسل کشی میں ملوث مذہبی شدت پسند و دہشتگرد) رمضان مینگل کی دوبارہ سکرین پر آنے کے کچھ ہی دن بعد ہزارہ کمیونٹی کو ٹارگٹ کرکے انکی نسل کشی کا سلسلہ دوبارہ شروع کردیا گیا۔ بلوچستان میں ہونے والے حملوں میں فوج اور ایجنسیز کا براہ راست ملوث ہونا ہو، عام آبادیوں پر حملے ہوں، ٹارگٹ کلنگ ہو، عورتوں اور بچوں کو اغواہ کرنے جیسے سنگین جرائم ہوں، ان تمام جرائم کے ثبوت نہ صرف موجود ہیں بلکہ بہت سے واقعات کے ثبوت سوشل میڈیا کے توسط سے دنیا کے سامنے آچُکے ہیں۔
بلوچستان میں مذہبی شدت پسندی اور مذہبی اقلیتوں کو ٹارگٹ کرنا خصوصی طور پر شیعہ اور ذکری کمیونٹی پر ہونے والے حملوں میں شدت یہ بات واضح کرتی ہے کہ ریاست پاکستان اور اسکی فوج بلوچستان کے تاریخی سیکولر مائنڈسیٹ کو بدل کر وہاں شدت پسندی اور دہشتگردی کو فروغ دیکر بلوچستان میں جاری قومی جدوجہد کے رخ کو موڑ کر وہاں کے عوام کو آپس میں دست و گریبان کرکے الجھانا چاہتے ہیں کیونکہ پاکستانی فوج کو نہ بلوچوں سے کوئی لگاؤ ہے اور نہ ہی وہاں مقیم ہزارہ و پشتون سمیت کسی اور قومیت سے، اگر انہیں کسی سے لگاؤ ہے تو وہ ہے چین اور سعودی عرب کے اربوں ڈالروں سے۔
بلوچستان میں جہاں سیاسی کارکنان و عام عوام ایف سی اور فوجی چیک پوسٹس سے لاپتہ کردیئے جاتے ہیں، تو انہی سخت سیکیورٹی والے علاقوں میں مذہبی دہشتگردوں کو اسلحہ و بارود سے لیس ہوکر گھومنے اور عوام پر حملہ کرنے سے یہ ہزاروں کی تعداد میں تعین ایف سی و فوج کیونکر روکنے میں ناکام نظر آتی ہے؟ کیا پاکستانی فوج بلوچستان میں صرف بلوچ نسل کشی کرنے کو ہی اپنا مقصد سمجھتی ہے؟ کیا پاکستانی فوج بلوچستان میں موجود تمام قومیتوں کو ہمیشہ ہی اسی طرح کے وحشیانہ طرز کے حملوں سے خوف میں مبتلا کرکے اپنا غلام بناکر رکھنا چاہتی ہے؟ کیا پاکستان کا طاقت ور ترین قوم خود کو بڑا بھائی کہنے والا پنجاب اور انکے رہنماء بلوچ، پشتون، ہزارہ، سندھی، مہاجر، شیعہ، احمدی، عیسائی و دیگر مذہبی و لسانی اقلیتوں کی نسل کشی اور انکے حقوق کے تحفظ کی خاطر کبھی اپنے فوج، جن میں اکثر ہی انکے قریبی رشتہ دار ہی ہوتے ہیں ان سے سوال کیا ہے اور انہیں یہ کہا ہے کہ یہ جو دہشتگردی ہے اس کے پیچھے وردی کیوں ہے؟ یقیناً ہمیں جواب میں مایوسی ہی ملے گی کیونکہ اہل پنجاب کے مطابق انکی فوج مقدس ہے اور فوج جو بھی عمل کرتی ہے، وہ اس عمل کی بغیر تحقیقات کیئے حمایت شروع کردیتے ہیں اور یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ہماری فوج دنیا کی نمبر ون فوج ہے۔
آج بلوچستان کی سرزمین پھر لہو لہان ہے، آج پھر مائیں سڑکوں پر ہیں، آج پھر بہنیں اپنے بھائیوں کے لاشوں پر سر رکھ کر رورہی ہیں، آج پھر کسی دلہن کا دلہا اس سے چھین لیا گیا ہے، آج پھر بلوچستان کے بچے یتیم کردیئے گئے ہیں، اور ان تمام گناہوں میں ملوث افراد کا تعلق جہاں سے ہے، وہ پاکستانی فوج آئی ایس آئی اور ایم آئی ہے۔
یقیناً آج وقت ہزارہ قوم سے تقاضہ کررہی ہے اب یہ لاشیں اٹھانا، بہت ہوا اب آواز اٹھائیں۔ اب یہ معاملہ صرف اقلیت ہونے کا نہیں لیکن آپکی شناخت کا ہے اگر آپ چاہتے ہیں اس دشمن سے اور اسکی دہشتگردی سے چھٹکارہ حاصل کریں تو سب سے پہلے دشمن کو پہچانیں، اسے مخاطب کریں اور اپنے دوست و بردار قوم بلوچ کے ہمراہ ہوکر بلوچستان کی آزادی اور اپنے بہتر مستقبل کی خاطر جدوجہد کریں ہوسکتا ہے اس طرح بلوچ ہزارہ پشتون و دیگر تمام اقوام جو بلوچستان میں مقیم ہیں چین کی سانس لے سکیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔