منظور کو سمجھنے کیلئے منظور کی ضرورت
برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ دانشور، شاعر، ادیب اور بہترین لکھاری واجہ منظور بلوچ کا تفصیلی اور تنقیدی انٹریو کل غور سے پڑھنے کا موقع ملا، گوکہ منظور بلوچ برملا طور پر انکار کرتا ہے کہ نہ میں دانشور ہوں اور نہ ہی اعلیٰ پائے کا لکھاری، اس کے باوجود میں راقم دوبارہ اس کے نام میں دانشور، شاعر، ادیب اور بہترین لکھاری کا لاحقہ لگارہا ہوں، آخر کیوں؟
اسکے جواب میں اتنا تو کہہ سکتا ہوں کہ میں دراصل خود دانشور، شاعر، ادیب اور بہترین لکھاری کے حقیقی تعریف عمل و کردار اور معیار سے نابلد ہوں۔ جس طرح ادنیٰ جماعت کے طالب علم کے لیئے پانچویں جماعت کا طالب علم بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتا ہے، حالانکہ پانچویں جماعت کا طالب علم کچھ نہیں جانتا، وہ محض ادنیٰ جماعت کے طالب سے کچھ زیادہ جانتا ہے تو اس کے لیئے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوسکتا ہے۔
میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ آراء، تجویز، بہترین خیالات، تصورات رکھنے والے اور نقاد خود کس حد تک صاحب رائے ہوتے ہیں؟ کس حد تک چیزوں کو سمجھتے اور جانتے ہیں؟ کس حد تک زمینی حقائق سے واقف اور بلد ہوتے ہیں؟ یہ ذمہ داری اور یہ پیچیدہ اور مشکل کام سماج، معاشرے اور تحریکوں میں ویسے دانشوروں، ادباء، شاعروں، اعلیٰ پائے کے لکھاریوں اور نقادوں کا ہوتا ہے، جب واجہ منظور بلوچ اس بات سے انکار کرتا ہے کہ میں اس معیار کا دانشور نہیں ہوں اور میں بھی منظور بلوچ کی اس بات سے پھر بالکل اتفاق رکھتا ہوں گوکہ میں ذاتی حوالے سے منظور کو بلوچ دانشور، شاعر، ادیب اور بہترین نقاد اور لکھاری قبول کرتا ہوں۔ یہ میری ذاتی رائے، جذبات اور احساسات ہیں۔ پھر یہ دیکھنا ہے کہ میری رائے، جذبات اور احساسات کس حد تک درست ہیں؟ کس حد تک غلط ہیں؟ میرا نقطہ نظر، زاویہ نظر اور دیکھنے کی عینک کی صلاحیت، اپروچ اور ادراک کیا اور کیسے ہے؟ بدبختی اور بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اور نیم سیاسی و نیم قبائلی سماج اکثر اس حقیقت اور سچائی کو بھول جاتا ہے۔
ہم سنی سنائی اور زبان زد عام باتوں پر کھڑے ہوکر دل و جان سے متفق ہوکر، دانشوری کے حقیقی معیار، عمل و کردار، تحقیق و تخلیق، علم و دانش سے خود نابلد ہوکر پھر بھی سب کے سب دانشور بھی بن جاتے ہیں، لکھاری بھی ہیں، شاعر و ادیب اور بہترین نقاد بھی ہیں اور کسی حد تک لوگ ہمیں ان اعزازات کے ساتھ مانتے بھی ہیں لیکن ہم اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جو لوگ مانتے اور قبول کرتے ہیں، ان کی سوچ و اپروچ اور علم و دانش کا معیار کیا ہے اور وہ کس حد تک صاحب رائے ہیں؟ اس حقیقت سے غافل رہ کر ہم غلط فہمی اور خوش فہمی میں ہمیشہ اپنی اصل حقیقت بھول جاتے ہیں۔
آج اگر سارتر، فینن، گرامچی، گبرئیل گارسیا مارکیز وغیرہ زندہ ہوتے اور یہ رائے پیش کرتے کہ منظور بلوچ واقعی بلوچوں اور بلوچ قومی تحریک میں دانشور، ادیب، شاعر اور اعلی پائے کے لکھاری ہیں تو یہ بات شاید منظور کے ساتھ ساتھ سب کے لیئے ایک مستند رائے ہوتا، مگر آج یہ میری رائے ہے کہ منظور سب کچھ ہے تو پھر وہی سوال اٹھتا ہے میری خود کی جاننے، سمجھنے، غور کرنے اور دیکھنے کا اپروچ کیا ہے؟ شاید منظور بھی آج اس چیز کو محسوس کرتا ہے اور کرنا چاہیئے بجائے میری راہے پر بغلیں بجانے کے حقیقت پسند بن کر یہ تسلیم کرنا چاہیئے، رائے پیش کرنے والا کس قدر صاحب رائے ہے، سب سے میرا اس وقت بنیادی اور اہم سوال یہی ہے، جس سے میرا معاشرہ اور سیاسی سماج بیگانہ ہے۔
سقراط جیسا عالم جب خود کہتا ہے کہ میں صرف ایک چیز جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا پھر کسی کے از خود دانشوری کے دعوؤں یا دانشوری کی خواہش یا تاثر دینے کی کوششوں کی کیا وقعت رہ جاتی ہے۔ اور جیسا کہ منظور بلوچ اپنے انٹرویو میں کہتا ہے کہ ایک لکھاری یا دانشور ہونے کے بڑا ہونے کا فیصلہ اسکا کام کرتا ہے کہ اسکا کام کتنے وقت تک زندہ رہتا ہے۔ اسی لیئے نا کبھی وقت درباری واہ واہی سے کوئی سطحی شخص دانشور یا لیڈر بنا ہے اور نا ہی وقتی سنگ باری و تنقید سے کوئی حقیقی دانشور یا لیڈر تاریخ کے بھنور میں غرقاب ہوپایا ہے۔
فرض کریں اگر میں خود اعلیٰ پائے کا شاعر نہیں تو کسی کی شاعری پر واہ واہ کرتا ہوں، کس اپروچ کے تحت؟ اگر تنقید کرتا ہوں بھی کس اپروچ کے تحت؟ کیا میں شاعری کے حروف تہجی تک سے واقف ہوں یا نہیں؟ پھر تعریف یا تنقید کیا خوامخواہ کے زمرے میں شمار نہیں ہوتا ہے؟
اسی طرح میں کسی بھی گوریلا جنگ کی تعریف کرتا ہوں یا اسے تنقید کا نشانہ بناتا ہوں تو میں خود گوریلاجنگ سے کس قدر واقف ہوں؟ اگر میں کسی کو لیڈر مانتا ہوں یا کسی لیڈر پر تنقید کرتا ہوں، تو لیڈرشپ کے حوالے سے میرا علم، تحقیق، مطالعہ، مشاہدہ اور تجربہ کیا ہے اور کس حد تک ہے؟ میں مانتا ہوں یا مسترد کرتا ہوں یعنی دونوں صورتوں میں کیا اس چیز پر کبھی ہم نے غور و خوض کیا؟ کیا ایسے اور اس حد تک تحقیقی تجربہ، مطالعہ، علم و شعور، ہمارے پاس موجود ہیں؟ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر کس بنیاد پر؟ صرف اور صرف سنی سنائی باتوں کو سر پر اٹھاکر بار بار کہنے اور رٹا لگانے سے نہ ان کا کوئی اثر اور اہمیت ہوتا ہے اور نا ہی وہ مستند رائے بنتے ہیں۔ البتہ وقت پاسی اور ذہنی عیاشی کے لیئے بحث نما باتیں اور گفتگو ہوسکتے ہیں، جو روز اول سے ہماری نیم سیاسی سماج کے حصہ تھے اور حصے ہیں۔
ان تمام باتوں نتیجہ نکال کر دیکھیں تو، حقیقت پسندی اور ایمانداری کی بنیاد پر یہ دیکھنا اور سمجھنا ہوگا کہ میں خود صلاحیت، قابلیت، تجربہ، ہنر، کردار، عمل، سوچ و اپروچ، قربانی، محنت و مشقت، مخلصی اور ایمانداری کے حوالے سے کہاں پر کھڑا ہوں؟ جواب کسی حد تک مطمئین بخش رہا تو کوئی بھی رائے، تجویز، تصور، خیال اور تنقید ضرور بااثر اور اہمیت یافتہ ہوگا اگر خود صلاحیت، قابلیت، کردار، عمل، سوچ و اپروچ صفر برابر صفر ہوگا تو آراء کتنا ہی خوبصورت ہو اس کی اہمیت صرف باتونی ہونے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔