اختر مینگل کا کہنا ہے کہ حکومتی حمایت کے معاہدے پر دستخط کے بعد اُس پر عمل درآمد کے لیے ایک سال کی مدت مقرر کی گئی تھی لیکن اگر معاہدے پر عمل نہیں ہوا تو حکومت کی حمایت ختم کر دیں گے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ ملک تیسری علاقائی جنگ کی جانب بڑھ رہا ہے کیونکہ ریاست دوسروں کے مفادات کے تحت ملک کو علاقائی تنازع میں گھسیٹ رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اب جنگ کا مرکز قبائلی علاقے نہیں بلکہ بلوچستان ہو گا۔
اسلام آباد میں وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں اختر مینگل نے کہا کہ ماضی میں بھی ہر حکومت نے بلوچستان کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کا اعتراف کیا ہے لیکن اب تک حکومت منحرف افراد کو تو کجا جمہوری جدوجہد کرنے والوں کو بھی مطمئن نہیں کر سکی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگر موجودہ حکومت اُن سے کیے گئے معاہدے پر عمل درآمد کرے تو بلوچستان کے بیشتر مسائل حل ہو سکتے ہیں، لیکن اگر حکومت اس کے حل میں سنجیدہ نہیں تو وہ آئندہ بجٹ کے بعد حکومت سے الگ ہو جائیں گے۔
بلوچستان سے لاپتا افراد کے معاملے پر اختر مینگل نے کہا کہ جب تک لاپتا افراد کا مسئلہ حل نہیں ہوتا بلوچستان کے مسائل حل کی طرف نہیں جا سکتے۔
علاقائی تنازعے اور تیسری جنگ
بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے ایران اور سعودی عرب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ریاست ایک بار پھر دوسروں کے مفادات کے تحت ملک کو تیسری علاقائی جنگ میں دھکیل رہی ہے اور اس کا مرکز بلوچستان ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بلوچ قوم پرست رہنما سردار اختر مینگل کا کہنا تھا ’ہم نے کئی بار وقتی مفادات کے لیے ملک کو داؤ پر لگایا، 1979 میں افغانستان میں سویت یونین کے آنے پر پناہ گزین بنائے ان پناہ گزینوں کو مجاہدین و طالبان بنایا اور پھر انہی طالبان کو دہشت گرد بنا دیا۔‘
انہوں نے کہا کہ آج ملک کے دفاع کا بڑا حصہ ان دہشت گردوں سے لڑائی میں صرف ہو رہا ہے جن کی پرورش ہم نے خود کی تھی۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ خارجہ پالیسی کے معاملے میں تمام صوبوں اور اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے کیونکہ اس کے اثرات تمام عوام پر پڑتے ہیں۔
بلوچستان کے مسائل، لاپتا افراد
ان کا مزید کہنا تھا کہ ماضی میں بھی حکومتوں نے بلوچستان کے ساتھ زیادتیوں کا اعتراف کیا ہے لیکن اُن کے مطابق ریاست ابھی تک جمہوری جدوجہد کرنے والوں کو بھی مطمئن نہیں کر پا رہی تو پہاڑوں پر بیٹھے افراد کو کیسے مطمئن کرے گی۔ ‘
انہوں نے کہا کہ بیروزگاری، امن و امان، ترقیاتی کاموں جیسے مسائل کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے اصل مسائل کچھ اور ہیں۔
اختر مینگل نے بتایا کہ بلوچستان میں عوام میں پائے جانے والے احساس محرومی نے بے چینی کو جنم دیا اور نتیجتاً لوگوں نے ہتھیار اٹھا لیے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ ’بلوچستان میں ہتھیار اٹھانے والے کافی دور جا چکے ہیں، انہیں واپس لانا مشکل ضرور ہے لیکن نامکمن نہیں۔ اس کے لیے ریاست کو کڑوا گھونٹ پینا ہو گا کیونکہ ریاست ماں کا درجہ رکھتی ہے۔ ‘
انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں لاپتا افراد ایک اہم مسئلہ ہے اور جب تک لاپتا افراد کا مسئلہ طے نہیں ہوتا بلوچستان کے مسائل حل کی طرف نہیں جا سکتے۔
انھوں نے بتایا کہ لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے وزیر اعظم عمران خان نے انھیں آرمی چیف سے ملنے کا مشورہ دیا ہے۔
اختر مینگل نے کہا کہ لاپتا افراد کے لیے قانون اب تک ایوان میں پیش نہیں ہوا ہے۔
حکومت سے الحاق اور مطالبات
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ اپنی جماعت کے معاہدے کے بارے میں بات کرتے ہوئے اختر مینگل نے کہا کہ اگر حکومت بلوچستان کے مسائل حل کرنا چاہتی ہے تو ان کے معاہدے اس کا بہترین راستہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی حمایت کے معاہدے پر دستخط کے بعد اُن پر عمل درآمد کے لیے ایک سال کی مدت مقرر کی گئی تھی لیکن اگر ان پر عمل نہیں ہوا تو حکومت کی حمایت ختم کر دیں گے۔
حکومت کے ساتھ طے پانے والے معاہدے پر عمل درآمد کے لیے وہ کتنے پر امید ہیں، اس سوال کے جواب میں اختر مینگل نے کہا کہ ’انہیں حکومت کی جانب سے ناامیدی نظر آ رہی ہے۔ آٹھ ماہ میں ابھی تک ان مطالبات پر عملدر آمد کے لیے مشترکہ کمیٹی ہی تشکیل نہیں پائی تو آئندہ چار ماہ میں کیا نتیجہ نکلے گا۔‘