مجھے سوال کرنے دو – زمین زھگ

302

مجھے سوال کرنے دو

تحریر: زمین زھگ

دی بلوچستان پوسٹ

میں سوال کرتا ہوں، مجھے روک لیجیئے، میں بات کرتا ہوں، مجھے سائیڈ میں کیجئے۔ ہاں میں لاعلم ہوں، نہیں سمجھ میں آتی کوئی بھی بات مجھے، نا سمجھنا ہے مجھے کسی اور کی تعریف، نا سمجھنا ہے مجھے جھوٹے تسلی۔ میں لاعلم ہوں، ہاں میں لاعلم ہوں، ہاں کسی بھی جنگ میں سروں کی کوئی معنی نہیں ہوتا لیکن ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہمارا مقصد کسی کی جان لینا نہیں نا ہی اپنے طاقت کا مظاہرہ اپنے لوگوں پر کرنا ہے۔ ہمیں اپنے غلطیوں پر پھر سے نظر دوڑانے کی ضرورت ہے، اپنی غلطیوں کو چپھانے سے اچھا ہے ہم اپنے غلطیوں کو روکنے کی کوشش کریں۔ کسی کو یہ تسلی نہ دیں یہ جنگ ہے، جنگوں میں ایسا ہوتا رہتا ہے یا بار بار ہم کسی اور انقلابی تحریک کی مثالیں دیں۔ ہمارے اپنے زمین پر ہزاروں مثالیں موجود ہیں، ہمیں اپنے سماج کو دیکھنا ہوگا، اپنوں کی مثالیں دینے کی ضرورت ہے، ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو اچھے سے سرانجام دینا ہوگا، اپنے قربانیوں کو اچھے طریقے سے سمجھنا ہوگا۔

یہ جانثار اسی طرح فدا ہوتے رہینگے، قربان ہو جائیں گے، اس دھرتی ماں کی خاطر لیکن یہ ذمہ داری ہر کسی پر عائد ہوتی ہے کہ تحریک کو اچھا رُخ اختیار کراکے دیں اور ہر ایک کارکن کو غلطیوں پر سوال کرنا ہوگا۔ ہمیں پوچھنا ہوگا کیوںکہ ہم نے اپنے ساتھی، اپنے دوستوں کی قربانی اس دن کے لیئے نہیں دی ہے، کئی گھر راکھ ہوگئے، کئی بے گھر ہو گئے، ہمیں ان کم سن بچوں کو دیکھنا ہوگا، ہمیں ماؤں کے احساسات کو سمجھنا ہوگا کہ انہوں نے اپنے لخت جگر کو اسی عظیم مقصد کے لیئے قربان کردیا۔ ہمیں زمین کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہوگا۔ آج جو اتنی بڑی ذمہ داری ہمارے کندوں پر ہے، ہمیں اسے اچھی طریقے سے سرانجام دینا ہوگا، کل ایسا نا ہو کہ شہیدوں کے سامنے ہمارے آنکھیں نیچھے ہو جائیں۔

ہمیں اپنے جنگ کو منظم کرنا ہوگا، وقت ہم سے صرف اور صرف قربانی کا تقاضہ نہیں کرتا، وقت ہم سے یہ تقاضہ کرتا ہے کہ ہم ایک ساتھ ہوں، ہر ایک کو خود کو سمجھانے سے اچھا ہے کہ ہم اسے سمجھنے کی کوشش کریں، غلطیاں بہت سے ہیں اس طرف بھی اور اس طرف بھی لیکن ہمیں وقت اور حالات کو سمجھنا ہوگا، اگر جیسے چل رہا ہے ویسے چلنے دو پر ہم یقین کریں تو ہم پیچھے رہ جائین گے۔ کل یا چائنا اور سعودی ہی نہیں ساری دنیا ہمارے زمین پر قبضہ جما کر بیٹھ جائے گی، ہم کچھ نہیں کر پائیں گے۔

بقول جنرل اسلم ہم نے کچھ نہیں کیا بہت کچھ کرنا باقی ہے، یہ جو وقت ہم سے ضائع ہو رہا ہے کیا اسے کوئی واپس دیگا؟ جو موقعے ہمارے ہاتھوں سے نکل رہیں ہے کیا ہمیں پھر سے کوئی دے سکتا ہے؟ آج ہزاروں کارکنوں کے ذہن میں ہزاروں سوالات اٹھ رہے ہیں، ان سے صرف اور صرف مایوسی پیدا ہو سکتا ہے اگر قوم کے نوجوان مایوس ہوں تو اس سے بہت بڑا دراڑ پیدا ہوسکتا ہے، جس کو کوئی بھی روک نہیں سکتا، آج وقت ہمارا ہے ذمہ داری ہماری ہے، منزل ہمارا ہے، لوگ بھی اپنے ہیں، یہ ہم پر عائد ہوتا ہے کہ ہم کیسے سنجیدہ ہوتے ہیں، وگرنہ آنے والے تحریک میں ہم اسی طرح یاد کیئے جائیں گے جس طرح آج ہزاروں یاد کیئے جاتے ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔