متحدہ امارات میں لاپتہ راشد حسین کے سو دن – آکاش بلوچ

360

متحدہ امارات میں لاپتہ راشد حسین کے سو دن

تحریر: آکاش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ قومی بقا اور مادر وطن کی دفاع کے پاداش میں گذشتہ 70 سالوں سے بلوچ قوم پاکستانی ریاست کے بے رحم ظلم و جبر کا شکار ہے۔ پاکستان نے اپنے قبضے اور قومی وسائل کی لوٹ مار کو برقرار رکھنے کے لیئے بلوچ قومی جدوجہد کو کچلنے کے لیئے بلوچ سرزمین پر لاشوں کا انبار لگایا ہے اور آئے روز نئے قبرستان آباد ہورہے ہیں۔

اس وقت پاکستانی ایجنسیوں کے ہاتھوں ہزاروں نوجوان لاپتہ ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے اور پاکستان اس پالیسی کو وسعت دے کر بیرون ملک تک پھیلا رہا ہے۔

گذشتہ تین مہینوں سے زائد عرصے سے متحدہ عرب امارات سے پاکستانی حکومت کے کہنے پر بلوچ نوجوان راشد بلوچ کی گمشدگی، بلوچ قوم کے لیئے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے کہ پاکستان بلوچ قومی آواز کو دبانے کے لیئے کسی حد تک بھی جاسکتا ہے۔

مگر المیہ یہ ہے کہ ہم تقسیم در تقسیم کے عمل سے گذر رہے ہیں، ہمارا قومی بے حسی کی انتہاء ہے کہ بلوچستان بلوچ نوجوانوں، بوڑھے، خواتین اور بچوں کی جبری گمشدگیوں کا دائرہ وسیع ہوتے ہوئے، اب بیرون ملک تک پھیلا رہا ہے۔ اگر بحثیت قوم ہم نے اپنی خاموشی برقرار رکھا، تو آنے والے دنوں میں بلوچ نوجوانوں کے لیئے خلیج سمیت یورپ تک کوئی جگہ محفوظ نہیں ہوگا، یہ سلسلہ راشد سے شروع ہوا ہے لیکن اسکا انجام سب کو بھگتنا پڑے گا۔

100دنوں سے متحدہ عرب امارات کے ایجنسیوں کے ہاتھوں لاپتہ بلوچ نوجوان راشد حسین بلوچ جو گذشتہ سال 26 دسمبر 2018 کو لاپتہ کیئے گئے تھے، گذشتہ 2 سالوں سے قانونی طور پر دبئی میں مقیم تھے اور راشد بلوچ پر گرفتاری کے بعد اب تک کوئی کیس درج نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی انکو منظر عام پر لایا گیا ہے۔ راشد بلوچ پر پاکستان کی طرف سے جھوٹے کیس لگائے جارہے ہیں، جس کا کوئی ثبوت نہ پاکستان کے پاس ہے اور نہ عرب امارات کے پاس ہے۔

اس طرح جھوٹے الزامات سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اب پاکستان بلوچ نوجوانوں کی بیرون ملک جلاوطنی کو برداشت نہیں کررہا ہے، پاکستان اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ بیرون ملک مقیم بلوچ نوجوان دنیا کے سامنے بلوچستان میں پاکستانی فوج کی بربریت اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر لب کشائی کرتے ہیں۔

100 دنوں سے لاپتہ راشد بلوچ کو دیار غیر کے ٹارچر سیلوں میں اس بات اندازہ نہیں ہورہا ہوگا کہ یہاں پر ہم سیاسی سماجی طور پر منتشر قوم سوشل میڈیا اور دیگر فورمز پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، وہ خود کی محنت، اخلاص، دن رات کی لگن کو دیکھ کر ہم پر بہت سے امیدیں وابستہ کیئے ہوئے ہوگا۔ لیکن بحثیت قوم ہمیں جس آواز کی ضرورت ہے وہ ناپیدہے۔ ماسوائے چند دوستوں کی ذاتی کوششوں اور ایمانداری سے انسانی حقوق کے اداروں تک راشد کے کیس کو موثر انداز میں پیش کرنے کہ آج تک اسے دشمن کے حوالے نہیں کیا گیا ہے۔

اگر بحثیت قوم ہم منظم ہوکر ایک آواز ہوتے، تو آج راشد بلوچ سمیت ہمارا کوئی بھی نوجوان اس طرح لاپتہ نہیں ہوتا، بلوچ قوم کی منتشر قوتیں جب متحد ہوکر کسی بھی پلیٹ فارم پر آواز اٹھائیں، تو ہماری کمزور آواز توانا ہوکر دشمن کو تکلیف دے گا اور دنیا تک ہماری آواز پہنچ جائے گا۔

ہمیں ہزاروں راشد حسین جیسے نوجوانوں کی زندگیوں کو بچانے کے لیئے اپنی انا، ضد، قربان کرنا پڑے گا۔ وگرنہ یہ مکار اور چالاک دشمن ہمیں ایک ایک کرکے ختم کرے گا۔ بلوچ قوم کے آنے والے کل کی خوشحالی اور بقا کے لیئے اپنے آج کو قربان کرنے والے نوجوانوں کے لیئے ہمیں اپنا انا قربان کرنا پڑے گا، یہی ہماری کامیابی ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔