کیمپ میں موجود لاپتہ شبیر بلوچ کی ہمشیرہ سیما بلوچ نے کہا کہ ہم کئی مہینوں سے احتجاج کررہے ہیں، کچھ دن قبل میری والدہ کی طبیعت خراب ہوگئی تھی جس کے باعث مجھے احتجاج موخر کرنا پڑا تھا۔
انہوں نے کہا کہ میں پھر اپنے بھائی کی بازیابی کیلئے احتجاج کررہی ہوں اور حکومت سے گزارش کرتی ہوں کہ میرے بھائی کو بازیاب کیا جائے ۔ شبیر بلوچ نے جو بھی گناہ کیا ہے اسے عدالت میں پیش کیا جائے اور قانون کے مطابق سزا دی جائے لیکن اس طرح لاپتہ نہیں رکھا جائے۔
سیما بلوچ نے کہا کہ ہمیں شبیر بلوچ کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں ہے کہ وہ سلامت ہے بھی یا نہیں جبکہ میری والدہ بیٹے کی جدائی کے باعث شدید بیمار ہوگئی ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ایک بار پھر سیاسی مداریاں گھر گھر لوگوں کو دھوکہ دینے میں مصروف ہیں یوں لگتا ہے خون سے لت پت، آنکھیں نکالی گئی اور ڈرل کی گئی بدن سب کچھ ڈرامہ تھا ۔ ان سیاسی مداریوں کو نہ بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشوں کی پرواہ ہے اور نہ ہی اجتماعی قبروں اور برسوں سے بھوک و افلاس کے شکار قوم کی، ان کو کرسی کی فکر ہے جس کو پانے کیلئے وہ کسی بھی حد کو پار کرسکتے ہیں۔
ماما قدیر بلوچ نے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بنائے گئے کمیشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں امید نہیں ہے کہ کمیشن بلوچ لاپتہ افراد کو بازیاب کرپائے ، تاحال جتنے افراد بازیاب ہوئے ہیں وہ ہمارے احتجاج کے باعث منظر عام پر لائے گئے ہیں لیکن کمیشن ان افراد کی بازیابی کو اپنی طرف سے ظاہر کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کمیشن نے دو افراد کی جیل میں موجودگی کہا ہے لیکن ان کے حوالے سے تفصیلات جاری نہیں کی گئی ہے جبکہ جن افراد کو بازیاب کرنے کا دعویٰ کمیشن کررہا ہے ان کی تفصیلات بھی سامنے نہیں لائی گئی ہے۔
دریں اثناء وی بی ایم پی کی جانب سے 26 جولائی 2016 کو محلہ تالاوان تحصیل زہری خضدار سے لاپتہ میر حسن ولد علی محمد، 2016 کو رمضان کے مہینے میں کردگاپ کلی پسند خان مستونگ سے لاپتہ کیئے گئے غلام رسول ولد غلام حیدر نیچاری، 15 مارچ 2019 کو نال ضلع خضدار سے لاپتہ کیئے گئے شیرو ولد محراب سکنہ پتنگ کوندی گریشہ اور لاپتہ محمد شریف ولد فضل کی تفصیلات جمع کرکے کیس صوبائی حکومت کے پاس جمع کرادی گئی ہے۔