لاشوں کے سوداگر
تحریر: پیادہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ہزار گنجی واقعہ نہیں کہونگا کیونکہ واقعہ کبھی کبھار اور اتفاقاً پیش آتا ہے، مگر یہاں بلوچستان میں روز مرہ کے بنیاد پر بلوچستان کے دھرتی کو جان بوجھ کر خون سے دھویا جاتا ہے، جس کے صفائی کا ٹھیکہ دار پاکستانی آرمی ہے، جسے انسان کے زندگی سے بڑھکر موت میں فائدہ ہے۔ آج تک کسی فرعون، نمرود اور ہٹلر نے تین چار قوموں کے آنگن کو ایک ساتھ سوگوار نہیں بنایا۔
نام نہاد کٹھ پتلی عمران خان کے جعلی حکومت کے گرانے کی خبر سے اندرونی اور بیرونی میڈیا کا توجہ ہٹانے کیلئے ہزارہ برادری کا خون بہایا گیا۔ اختر مینگل سمیت صوبائی حکومت اور ضیاء لانگو کیلئے ایک مختصر موضوع بنایا گیا۔
ہماری بہن جلیلہ حیدر جو بلوچ لاپتہ افراد کے کیمپ میں، اپنے طلوع ہوتے سورج کو غروب کرتی ہے، اسکی بلوچ قوم سے اظہار یکجہتی آج بلوچ قوم کے ضمیر کو جگاتی ہے کہ دیکھو میرے گھر کے چراغوں کو گل کردیا گیا۔ آج ہم سب کی خاموشی ایک طرف ہماری بزدلی کی نشانی ہوگئی، دوسری جانب پاکستان کا چھپا ہوا چہرہ واضح ہوگیا۔
جہاں داعش بھی پاکستانی آرمی کی مرہون منت ہے، پنجابی کی بوٹ پالش کرنے والے اختر مینگل سمیت ضیاء لانگو شرابی آنکھوں میں مگرچھ کے آنسوں لیکر آگئے، یہ تو ویسے بھی لاشوں پر سیاست کرتے ہیں، اختر مینگل اپنے بھائی اسد مینگل کو نیلام کرکے پنجابی غلامی کو ترجیح دیدیا، اس بار صدر پاکستان تو ویسے بھی خواب خرگوش سورہے ہیں، نام نہاد وزیر اعظم چند چمچوں کے ہمراہ آکر ہزارہ برادری کے شہداء کے اہلخانہ سے یہ کہے گا کہ جی غلطی ہوگئی معاف کرو پچھلی بار آرمی چیف آیا تھا، وزیر داخلہ آیا تھا، اب واضح الفاظ میں سمجھ لینا چاہیئے کہ ہر قسم سے بلوچستان میں رہنے والے تمام قوموں کی نسل کشی کی جارہی ہے، کبھی داعش، کبھی لشکر جھنگوی، کبھی طالبان، جنکا سلسلہ ناپاک آرمی کی پلٹونوں سے جاکے ملتا ہے، صرف پنجابی کو جگہ دینے کیلئے۔ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ہزارہ، پشتون، بلوچ مٹاو پاکستان بچاو صاف کیوں نہیں کہتے کہ پاکستان ٹوٹ چکا ہے۔
ایک ناپاک ریاست، وہ ریاست جو ایک غیر مسلم شراب خور کی قائم کردہ ریاست ہے، کی تمام ستونیں ٹوٹ چکی ہیں، اب خیریت سے بلوچستان سے نکل جاو ورنہ تم تو کرائے کے قاتل منگوا کر بلوچستان کو خون سے لہو لہان کرتے ہو، مگر یہاں بلوچ پشتون سمیت دوسرے بلوچستان دوست جماعتیں بھی انگلی ٹیڑھی کرکے گھی نکالنا اچھی طرح جانتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔