سبین محمود نے خود کو ہر وقت اپنے انقلابی نظریے اور ضمیر کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہوئے تاریخ میں باوقار طور پر ہمیشہ کے لیے زندہ رہنے کا راستہ اختیار کیا – ماما قدیر بلوچ
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کو 3568 دن مکمل ہوگئے۔ سیاسی و سماجی کارکنان نے مختلف علاقوں سے آکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی چیئرپرسن بی بی گل بلوچ اور وائس چیئرپرسن طیبہ بلوچ میں اس موقعے پر احتجاجی کیمپ میں موجود تھی۔
ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج انتہائی افسوسناک دن ہے کہ آج ہی کے 24 اپریل 2015 کو انسانی حقوق کے علمبردار سبین محمود کو کراچی میں شہید کیا گیا۔ وہ جسمانی طور پر آج ہمارے ساتھ نہیں ہے لیکن ان کا وجود آج بھی قائم ہے اور ان کی فکر ہمارے ساتھ ہے۔
انہوں نے کہا کہ سبین محمود بلوچستان مسئلے پر خاموشی توڑنے والی آواز تھی جنہیں خاموش کردی گئی۔ 9 اپریل 2015 کو لاہور لمز میں بلوچستان کی صورتحال پر لاپتہ بلوچوں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماوں اور دیگر متاثرین کو شرکت کرنی تھی لیکن خاموشی کو توڑنے والی آواز کو بلند ہونے سے پہلے ہی دبا دی گئی، لمز سیمینار کے منسوخی کے باوجود بلوچستان مسئلے پر بحث کے مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے کراچی میں روشن فکر سیاسی و سماجی کارکن سبین محمود نے کراچی میں سیمینار منعقد کیا جس کے مثبت نتائج سامنے آئے لیکن اس کے رد عمل میں ریاستی اداروں سے سبین محمود کو نشانہ بناکر شہید کیا۔
انہوں نے کہا سبین محمود کا بلوچستان مسئلے پر خاموشی کو توڑنے کا اقدام ایک گہرے انقلابی و شعوری فیصلے کی عکاسی کرتی ہے۔ وہ جانتی تھی کہ ایک ایسا فریضہ ادا کرنے جارہی ہے جس کے سزا موت ہے۔ وہ ممتاز صحافی حامد میر پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے پس پردہ عوامل سے اچھی طرح آگاہ تھی مگر سبین محمود نے خود کو ہر وقت اپنے انقلابی نظریے اور ضمیر کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہوئے تاریخ میں باوقار طور پر ہمیشہ کے لیے زندہ رہنے کا راستہ اختیار کیا۔
ماما قدیر نے کہا سبین محمود کو قتل کرکے بلوچستان کو خاموش نہیں کرایا جاسکتا ہے لہٰذا حق گوئی کی سزا موت مقرر کرنے والوں کو اپنے سفاکانہ نو آبادیاتی فکر و عمل کو ترک بلوچ مسئلے کو تاریخی حقائق اور قوم کے طور پر دیکھ کر حل کرنے پر توجہ دینی چاہیئے۔