شہید امیرالملک بلوچ
تحریر: چاکر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جب بھی ہم اپنے خیالی دنیا سے نکل کر اپنے حقیقی زندگی کے بارے میں سوچتے ہیں، تو سب سے پہلے ہمیں احساس غلامی ستاتی ہے اور ہم اس سوچ کو لے کر اس کے گہرائی میں چلے جاتے ہیں اور اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ غلامی سے چھٹکارا حاصل کرنا کیسے ممکن ہے۔ کافی سوچ و بچار کے بعد ذہن میں اس سوال کا جواب گردش کر رہا ہوتا ہے کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں، ہماری ایک الگ ثقافت ہے تو کسی کو کیا حق ہے وہ باہر سے آکر ہمارے موجودہ صورتحال اور مستقبل کے فیصلے کرے، مجال ہے میں اس حرکت کو برداشت کروں. ہمیشہ میں نے اپنے بڑوں یعنی بزرگوں سے سنا ہے کہ بلوچ کے خون میں ضد اور مزاحمت رہا ہے، پھر یہاں ایک اور سوال دماغ میں پیدا ہوتا ہے کہ کیا بلوچ دن اول سے مزاحمتی ہیں؟ فوراً اس کا جواب بھی مجھے سنجیدہ سنگتوں کے مجلس سے مل جاتا ہے کہ یار دن اول سے بلوچ کے ساتھ ناانصافی ہوتا آرہا ہے اور یعی نا انصافی انسان کو باغی بناتا ہے، باغی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے ذات سے نکل کر اپنے قوم کی بقاء کے لیئے اپنا سب کچھ قربان کر دیتے ہیں۔ شہری زندگی کو چھوڑ کر پہاڑوں کی زندگی کا انتخاب اس لیئے کرتے ہیں اور اسے ان سب چیزوں کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں مجھے گرمی، سردی، بھوک و پیاس اور اس کے علاوہ تمام تکلیفوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے اور وہ انسان پھر بھی پہاڑوں کے اس کٹھن سختی میں بھی مطمئن ہوتا ہے کیونکہ وہ دشمن کے خلاف جنگ میں مصروف عمل ہے۔
انہی نوجوانوں میں سے ایک نوجوان شہید امیرالملک بلوچ بھی تھے، یہ نوجوان خضدار شہر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک گاؤں توتک کا رہائشی تھا۔ یہ وہ گاؤں ہے، جہاں امیر الملک کے علاوہ شہید نعیم جان قلندرانی اور شہید یحیٰی بھی پہدا ہوئے۔ امیر الملک سے بذات میری ملاقات کبھی نیہں ہوا تھا لیکن امیر الملک کو جانتا تھا کہ یہ دوست کون ہے اور کہاں سے ہے، آج سے سات سال پہلے کچھ دوستوں نے مجھے وتاخ کی طرف آنے کی دعوت دی کہ آپ کچھ دنوں کے لیئے ہماری طرف آئیں لیکن میں اس بات کو اپنی بدقسمتی سمجھتا ہوں کہ اس وقت میں وہاں کیوں نہیں گیا، کچھ عرصے بعد جن دوست کے ساتھ میرا رابطہ تھا وہ دوست محاذ پر شہید ہوئے اور سنگتوں سے میرا رابط ختم ہوا، کیوںکہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ ایسا واقعہ بھی ہو سکتا ہے۔ خیر شاید اس وقت میں ذہنی طور پر کمزور تھا کہ یہ سب تحریک کے حصے ہیں یہ 7 اپریل 2014 کا دن تھا، میں کچھ کام سے خضدار گیا ہوا تھا اور میرا رہائش بھی چھاؤنی کے آس پاس تھا، صج کا وقت تھا اچانک دشمن کے ہیلی کاپٹروں کی بے چینی دیکھ کر مجھے انداذہ ہوا کہ سنگتوں کے کیمپ پر آپریش ہوا ہے اور پریشان بھی تھا کہ یا اللہ دوستوں پہ خیر کرنا، اس پریشانی میں میں نے کافی دوستوں سے رابطے کرنے کی کوششیں کی کہ دوستوں کا حال حوال لے سکوں لیکن دو دن بعد جب میری نظر اخبار میں ایک خبر پر پڑی، جس میں تنطیم بی ایل اے نے اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ دشمن کے ساتھ جھڑپ میں ریاستی فوج کے متعدد اہلکار ہلاک ہوئے ہیں، ہمارے تین ساتھی بھی دشمن کے ایس ایس جی کمانڈوز کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے ہیں، جن میں شہید امیرالملک قلندرانی کا نام بھی تھا۔
سنگت امیر الملک کے ایک قریبی دوست سے ملنے کا موقع ملا تو اس دوست نے کہا کہ امیرالملک ہر وقت نئے دوست بنانے کی کوشش میں لگا رہتا تھا اور سب دوستوں کا رابطہ سنگت امیر کے ساتھ تھا، امیر کے شہادت کے وقت اس کے موبائیلز کا ایک بیگ بھی اس کے ساتھ تھا، وہ ہر دوست سے رابطے کے لیئے الگ موبائل استمال کرتا تھا۔ دوستوں کا کہنا تھا کہ جب دشمن کے ہیلی کاپٹروں نے صبح سویرے کیمپ پر حملہ کیا تو سب دوست دشمن کے گھیرے سے نکلنے میں کامیاب ہوئے بدقسمتی سے امیر الملک اور اس کے دو نئے دوست گھیرے میں پھنس گئے اور دشمن کے ساتھ مقابلہ کرکے آخر میں گولیاں ختم ہونے کی وجہ سے بجائے دشمن کے سامنے سرینڈر کرنےکی آخری گولی کا انتخاب کرکے جام شہادت نوش کیا، جب سنگتوں کو امیر کی شہادت کی اطلاع ملا تو کچھ دوست پریشان تھے کہ وہ موبائل والا بیگ بھی شاید دشمن کے ہاتھ لگ گیا ہے، تو وہاں موجود ایک دوست نے ضد کی کہ ہم وہاں جاکر اس جگہ کو تلاش کرتے ہیں، شاید امیر جان نے وہ بیگ چھپایا ہو بعد میں دوستوں کے درمیان فیصلہ یہ ہوا کہ چند دوست امیر الملک کی شہادت کی جگہ جا کر اس بیگ کو تلاش کریں گے، جب کچھ دوست وہاں پہنچے تو شہید امیرالملک نے بطور نشانی سگریٹ پی کر اس کا آدھا حصہ وہاں چھوڑ دیا تھا تاکہ دوست سمجھ جائیں، وہ موبائل والا بیگ یہاں موجود ہے، امیر جان کی اس عقل و سمجھداری اور گوریلا پالیسوں کو دیکھ کر کبھی کبھی یہ سوچتا ہوں یار امیر آپ کچھ وقت اور ہمارے ساتھ ہوتے، ہمیں آپ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا۔
ایک اور دوست اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ امیرالملک کی خواہش تھی کہ اسے نیو کاہان شہداء قبرستان میں دفن کیا جائے لیکن امیر جان کے شہادت کے وقت دشمن نے تمام راستوں کو بند کر رکھا تھا اور امیر جان کو جب پہاڑوں میں پارود کے مقام پر سپردخاک کیا گیا تو دشمن ایک مہینے بعد 14 مئی 2014 کے دن اس کے آخری آرام گاہ پر آکر ہیلی کاپٹر سے شیلنگ شروع کردیا تھا، امیر الملک وہ گوریلا دوست تھا جس نے دشمن کے نیندوں کو حرام کر رکھا تھا، امیر کے جانے کے بعد اس خلا کو کوئی پر نہیں کرسکتا لیکن ہمیں آگے آکر امیر الملک کے چھوڑے ہوئے کاموں کو آگے لے جانا ہے اور جو خواب شہید امیرالملک نے اپنے آنے والے نسل کے لیئے دیکھا تھا ہمیں اس خواب کو پورا کرنا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔