بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے شہدائے مرگاپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہید غلام محمد بلوچ، لالا منیر بلوچ اور شیر محمد بلوچ کو نہ صرف بلوچ قومی تاریخ بلکہ دنیا میں جب بھی مظلوموں کا ذکر ہوتو انہیں ضرور یاد کیا جائے گا۔ غلام محمد بلوچ وہ ہستی ہے جس نے سرزمین سے عشق وآزادی،کمٹمنٹ اوراپنی قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت بلوچ قوم میں صدیوں سے پارٹی اور ادارہ کے خلاء کو بلوچ نیشنل موومنٹ جیسا عظیم پارٹی دے کر پر کردیا اور یہ ثابت کردیا کہ پارٹی ہی تحریک کے تسلسل کا ضامن ہے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ شہدائے مرگاپ کی قربانی بلوچ قومی تحریک میں بہت بڑی پیش رفت ثابت ہواجس نے پاکستان کے قبضہ گیریت کی بنیادیں ہلا دیں اور بلوچ قوم کاآزادی اوراپنی اقتداراعلیٰ کی بحالی کے جدوجہد پر یقین مزید پختہ کردیا۔ شہدائے مرگاپ سے لے کر آج تک ظلم و بربریت کی تمام اقسام آزمانے کے باوجود پاکستان بلوچستان میں اپنی رٹ قائم کرنے اور جھنڈا لہرانے میں ناکام ہوچکاہے۔ یہ پاکستان کیلئے بہت بڑی شکست ہے۔
انہوں نے کہا کہ اکیسویں صدی نیشنلزم اورنیشنلزم کے ابھار کا صدی ہے اورتاریخ کے تجربات نے ثابت کردیاہے کہ اس صدی میں قومی ریاستوں کا وجود ناگزیر ہوچکاہے۔ آج اس آفاقی صداقت سے سرموانحراف ممکن نہیں ہے کہ دنیا کے تمام محکوم،مظلوم اور غلام قوموں کے قومی مسائل کا حل صرف نیشنلزم میں مضر ہے۔ شہدائے مرگاپ نے بلوچ نیشنلزم کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنے کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ شہدائے مرگاپ کی عظیم قربانی نہ صرف بلوچ بلکہ دنیا بھر کے مظلوم و محکوم کے قومی جدوجہد کے لئے مشعل راہ ہے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا غلام محمد بلوچ قومی تاریخ میں وہ عظیم ہستی ہیں جس نے ہمیشہ اجتماعی سوچ کو فروغ دینے کے لئے جدوجہد کی اور اجتماعی بقاء کے لئے بلوچ قومی سیاست کے سمت اور رخ متعین کرنے میں پہل کیا اورطویل غلامی کے دوران باربار تحریکی تسلسل ٹوٹنے کے وجوہات کا سدباب کیا۔ یہ بلوچ قوم پرستانہ سیاست کا وہ سنہرا باب ہے جس کا سہر اچیئرمین غلام محمد کے سر جاتاہے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا چونکہ ہماری دشمن جمہوری وسیاسی اقدار سے محروم ایک درندہ ہے۔ وہ چیئرمین شہید کے سیاسی فکر و فلسفے سے خائف تھے اورہمیشہ دشمن کی زیر عتاب تھے۔ ان پرطرح طرح کے حربے آزمائے گئے۔ جھوٹے مقدمات سے لے کر اُٹھا کر لاپتہ کرنے اور شدید ذہنی و جسمانی اذیتوں جیسی سزائیں دینا شامل ہیں مگر بہادر اور نڈر انسان کی حیثیت سے انہوں نے تمام صعوبتوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا اور اپنا مشن جاری رکھا۔ انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ انہیں شاید زیادہ دیر تک سیاست کرنے کی اجازت نہ ہو لیکن انہوں نے شخصی انحصاریت پر چلنے والی بلوچ قومی سیاست کوعوامی بنادیا اورعوام میں رہ کر عملی طور پر آگاہی اور آزادی کے پیغام کو پہنچانے کا اپنا نصب العین بنایا اور اس میں کامیاب ہوئے۔ یہ اسی کا ثمر ہے کہ آج بلوچ عوام اپنے قومی تحریک سے ایک مضبوط وابستگی رکھتاہے اور دشمن کے تمام مظالم قوم کو اس تحریک سے دست برادر کرنے میں ناکام ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج دس سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود شہید غلام محمد بلوچ کا کاروان روان دوان ہے۔ غلام محمد بلوچ نے بلوچ قوم کو باور کرایا کہ منظم جماعت اور اداروں کے بغیر کوئی تنظیم یا تحریک آگے نہیں جا سکتی۔ آج اگر بی این ایم موجود ہے تو اس کی وجہ عوامی حمایت، موجود ادارے اور دوستوں کی محنت ہے کیونکہ شخصی یا انفرادی بنیاد پر کوئی بھی تنظیم نہ موثر ثابت ہوسکتی ہے اور نہ دیرپا۔ اگر ہمیں نتائج حاصل کرنا ہے تو ہمیں اس کاروان کو مزید توانا، منظم اور اداروں و ڈسپلن کی پابندی کے ساتھ آگے لے جانا ہوگا۔ موجودہ قومی ابھار، بی این ایم کی اندرون و بیرون ملک سرگرمیوں سے یہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ ہم دشمن کو اپنے وطن سے نکالنے پر ضرور مجبور کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ آج خطہ اور دنیا کے حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں اس سے بلوچ قوم کو اپنی تیاری اور جد و جہد میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔ دنیا اب پاکستان کی منافقت، دہشت گردی اور انتہاپسندی کی فروغ کی پالیسی سے بیزار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ طالبان کے ساتھ امریکی مذاکرات بھی خطے میں تبدیلی کا باعث بن رہے ہیں مگر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو افغان جنگ میں یہ تجربہ ضرور حاصل ہوگئی ہے کہ یہاں دہشت گردی کا اساس کون اور کہاں ہے۔ پاکستانی ریاست نے سرتاج عزیز، محمود قریشی سمیت کئی اعلیٰ ترین ذمہ داروں کی شکل میں یہ اعتراف کیا کہ انہوں نے دہشت گردوں کو پناہ اور علاج معالجے سمیت کئی سہولتیں فراہم کی ہیں۔ اسامہ بن لادن کا ایبٹ آباد میں کئی سال گزارنا اور وہاں مارا جانا ایک ناقابل تردید ثبوت ہے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا اس خطے نے بے حد درد، مشکلات اور تکالیف سہہ لئے ہیں۔ اب وقت آچکاہے کہ عالمی طاقتیں بلوچ قومی تحریک آزادی کی واضح حمایت کا اعلان کریں تاکہ بلوچستان میں جاری انسانی بحران،نسل کشی سے بلوچ قوم کو نجات مل سکے اور خطے اور دنیا میں پائیدار ترقی اور امن و خوشحالی کے نئے امکانات پیداکئے جاسکیں۔
آخر میں انہوں نے کہا شہید غلام محمد بلوچ، شہدائے مرگاپ اور تمام بلوچ شہدا نے ایک آزادو خودمختیار بلوچستان کے لئے اپنی جانوں کو نذرانہ پیش کیاہے اور ہمیں یقین ہے کہ ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور بلوچ قوم ایک دن اپنے وطن کا ضرور مالک ہوگا۔