شہداءِ تلسر – نود شنز بلوچ

283

شہداءِ تلسر

تحریر: نود شنز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب تحریکیں عروج پر پہنچتی ہیں، تو معاشرے کا ہر عام و خاص اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ موجودہ بلوچ قومی تحریک جو کئی نشیب و فراز سے ہوتے ہوئے آج اس مقام تک آ پہنچا ہے، جو ہزاروں وطن زادوں اور غیرت مند ورناوں کا لہو اپنے اندر سمائے ہوئے ہے۔ مند کا شہید عاطف ہو یا بولان کا محی الدین کماش شہید خالق داد ہو یا شہید واجو نصیر کمالان، ہر بلوچیت کے علمبردار نے اپنے تاریخی اور روایتی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنگ میں اپنا حصہ ڈالا ہے اور کئی شہادت کے عظیم رتبے سے سرشار ہوئے ہیں۔

یہ انہی مہروان شہیدوں کے لہو اور قربانی کا ثمر ہے، آج ہر بلوچ نوجوان مسلح جدوجہد کیلئے کمر بستہ ہے، انہی شہیدوں کی جدوجہد اور شہادت نے مجھ جیسے نالائق انسان کو ایسی سوچ بخشی ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ آزادی اور انقلاب کی جدوجہد دنیا کی مقدس ترین راہ ہے۔

ماضی میں تلسر ذکری سیدوں کی وجہ سے جانا جاتا تھا، مجھے یاد ہے بچپن میں گرمیوں کی شاموں کو ہمیشہ بشام کے موسلادھار بارشیں کولواہ کی جانب سے گرج اور چمک کے ساتھ مغرب کی جانب سفر کرتیں، میں ہمیشہ اپنے بڑوں سے سنتا وہ کہتے کہ آج تلسر میں بارش ہو رہی ہے، انکا عقیدہ تھا کہ تلسر میں سید رہتے ہیں اسی لیئے وہاں زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔

آج اسی تلسر کی مٹی کو وطن زادوں نے اپنے لہو سے رنگ دیا اور آج وہ قومی شہیدوں کا سرڈگار جانا جاتا ہے، کل وہاں ملآوں نے بلوچ عوام کو مذہب اور ملا و مریدی کے نام پر خوب لوٹا۔

تلسر ایک چھوٹا سا گاوں ہے، جو کولواہ اور گورکوپ کے درمیان اور ھوشاب کے جنوب میں واقع ہے، شہدائے تلسر، شہید سنگت منیر، سنگت واھگ اور شہید وشدل جنکا تعلق ایک ہی خاندان سے ہے اور وہ آپس میں کزن تھے۔ اسی گاؤں سے تعلق رکھتے تھے۔

شہید واھگ اور شہید سنگت وشدل آپس میں کزن ہونےکے علاوہ اچھے نظریاتی سنگت تھے، ہم عمر اور ہم خیال تھے، جنکا زیادہ تر اٹھنا بیٹھنا ایک ساتھ رہتا۔ شہید واھگ اور وشدل نے اپنی قومی جدوجہد کا آغاز بلوچ طلباء تنظیم بی ایس او آزاد سے 2014 میں شروع کیا اور وہ بی ایس او آزاد کے ھوشاب ھنکین سے منسلک اپنے قومی و تنظیمی ذمہ داریاں اور فرائض مخلصی، جنون اور ایمانداری کے ساتھ سرانجام دیتے رہے۔

جون 2014 کو تنظیم کے ایک زونل پروگرام میں سنگت واھگ اور وشدل سے مختصر ملاقات ہوئی مگر ملاقات رسمی رہی۔ پھر اس کے بعد حالات یکسر تبدیل ہو گئے۔ وہ جو علاقے میں ایک سیاسی اور انقلابی ماحول تھا، وہ سی پیک روٹ کی وجہ سے یکسر تبدیل ہوگیا۔ ریاست نے علاقے میں جبر، سختی اور آپریشن کا آغاز کر دیا۔ ھوشاب و شاپک سمیت پورے مکران میں تشدد کی نئی لہر نے جنم لی۔ مزاحمتکاروں اور قابض فورسز کے درمیان جھڑپیں اب روز کا معمول بن گئیں، اسی بیچ کئی شہرت پسند اور نیم انقلابی حالات کا مقابلہ نہیں کر سکے اور آہستہ آہستہ تحریک سے دستبردار ہوکر آخر کار خلیج میں روپوش ہو گئے۔ اس وقت پورا علاقہ مسلح جنگ کی لپیٹ میں تھا، سیاسی ماحول نہ ہونے کے برابر تھا، ریاست کا جبر پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھا تو طلباہ سیاست ہو یا عوام سے روابط سب ان دنوں مشکلات سے دوچار تھے۔ پورے ھوشاب ھنکین میں بس تلسر ہی وہ علاقہ تھا، جہان حالات آزادی پسندوں کے حق میں تھے، تو 2015 سے 2017 تک ھنکین کے جتنی بھی سرگرمیاں پروگرام وغیرہ ہوتے وہ تلسر میں ہوئے، اس بیچ جگہے اور وقت کا تعین راستے وغیرہ یہ ان دونوں سنگتوں کے زمہ میں آتا اور وہ یہ زمہ داری بخوبی نبھاتے رہے۔

اگست 2016 کو ھنکین کے ایک پروگرام مین تلسر جانا ہوا، تو بیچ راستے میں ہی سنگت واھگ ہم کو ملا۔ مہروان، خوبصورت، کم عمر، تقریباً انیس سال عمر، خشک ہونٹوں کے ساتھ ایک مسکراہٹ اور آنکھوں میں ہزاروں امید و جنون لیئے ہم سے بغلگیر ہوا۔ نہ جان نہ پہچان بس نظریاتی ہم آہنگی۔ آگے چلنے پر سنگت وشدل سے ہم ملے۔

وشدل ایک ملنگ انسان تھے، دونوں ہاتھوں اور گلے میں کئی تعویز و چٹ لیئے، جیسے ھانل کے عشق میں شے مرید دیوانا۔ مگر یہاں ھانل کوئی لڑکی نہیں بلکہ سرڈگار بلوچستان ٹہرا۔ تنظیمی پروگرام کے بعد ہم نے تھوڑا باہر بیٹھ کر مجلس کے علاقائی صورتحال اور نام نہاد سرنڈری کے موضوع پر بات کی، سنگت ہمیں بہت پر عزم نظر آئے، اس پورے دورانیئے میں میرا جی نہیں بھرا، سنگت واھگ کو دیکھتے ہوئے کہ رخصتی کا وقت آ پہنچا، الوداع کے وقت ہم کئی تمنا دل میں لیئے کہ پھر ملینگے تلسر کی وادی مین، مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

چونکہ سنگت واھگ اور وشدل 2015 سے ہی ریاست کے نظر میں تھے تو انکیلئے مزید غیر مسلح رہنا مناسب نہ تھا تو دونوں ایک ساتھ مسلح تنظیم میں شمولیت اختیار کرلیا اور مسلح محاذ پر دشمن پر کئی بار وار کیا۔

میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ وطن کے شے مرید جب چاند راتوں کو کولواہ کی دشت میں سفر کرتے ہونگے، تو راستے میں کتنی بار رک کر بلوچستان کی خوبصورتی، زیبائی سے اپنے بے پناہ محبت کا اظہار کس انداز میں کرتے ہونگے۔ کیا وہ میری طرح گلزمین سے ہم کلامی کرتے ہونگے؟ کیا احساسات ہونگے، جب وطن کا ایک سچا عاشق سرمچار چاند رات کو کسی بلند ماتکوہ پر گھاٹ پر مورچہ زن ہو اور زربار کی پر مہر ہوا چل رہی ہو اور دور پہاڑوں پر نود اتر رہے ہوں۔

20 اگست 2017 کو جب خبر آئی کہ تلسر میں قابض فورسز اور مقامی ڈیٹھ اسکواڈ کے ساتھ مسلح جھڑپ میں سنگت واھگ اور وشدل شہید ہوئے ہیں تو گویا دکھ اور فخر کا احساس ایک ساتھ ہوا، سنگتوں کی شہادت اور جدائی ایک نقصان ہے، مگر قومی آزادی جیسا عظیم مقصد بغیر لہو اور قربانی کے حاصل نہیں کی جا سکتی۔ ہر سنگت کی شہادت مجھے مزید پختگی، جنون، ہمت اور ولولہ بخشتا ہے۔ شہید ساتھیون کےفکر و فلسفے کا میں آخری سانس تک پابند رہونگا۔

9مارچ 2018کو شادی کور میں دیگر کامریڈ ساتھیوں کے ساتھ شہید ہونے والا سنگت منیر ولد زباد جس کو میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا البتہ بہت سے سنگتون سے منیر کے حوالے سے سننے کو ملا کہ سنگت ہے، کافی وقت سے محاز پر ہے۔ جب شہادت کی خبر ملی تو سر فخر سے کوہ_آماچ جیسا بلند ہوگیا کہ سنگت اپنے نظریات پر ڈٹا رہا۔ اس وقت بہت سے سنگت ذاتی اور خاندانی رشتوں کو لیکر دباو کا شکار ہو رہے تھے اور تحریک سے راہ فراریت اختیار کر رہے تھے، مگر جو حقیقی معنوں میں تحریک کے ساتھ ذہنی حوالے سے منسلک ہوتے ہیں، انہیں بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ تحریک میں ہمیں کوئی رومانس نہیں ملے گا، بلکہ یہ قربانی اور کھٹن سے کھٹن ترین راہ پر چلنے کا نام ہے۔ سنگت منیر اور دیگر شہیدوں کے پاک لہو نے ہم جیسوں کو جنونیت جیسی کیفیت بخشی۔

شہید منیر کی شہادت کے کچھ وقت بعد مجھے جانا ہوا اپنے آبائی گاوں، جہاں ایک دن شہید منیر کے ایک قریبی رشتہ دار سے اتفاقاً ملاقات ہوئی، رسمی حال احوال کے بعد آنے کی وجہ دریافت کی تو بولا شہید منیر جان کی بیوہ جو آجکل اپنے والدین کے ہاں ٹہری ہے اور اس کے ساتھ شہید کی چند ماہ کی بیٹی ہے بیچاری اکثر بیمار رہتی ہے۔ میں اکثر اس کیلئے دودھ وصول کرنے کبھی اس کے ہاں جاتا ہوں۔ میں نے ایک آہ نکالی انکھیں جیسے نم ہو گئیں، میں پھر خاموش ہوگیا، میں اس سے بہت کچھ کہنا چاھتا تھا کہ ابھی تک شہیدوں کے ہم خیال زندہ ہیں، شہید منیر کی قربانی، سر و آنکھوں پر، اس وقت و کیفیت کو لفظوں میں بیاں نہیں کر سکتا، مگر میرے دل میں ان کیلئے ہمدردی اور شہید منیر کی عزت و قدر اور بڑھ گئی۔

گلزمین پر گرنے والے شہیدوں کے مقدس لہو کی قسم، آجوئی کا یہ کاروان ہماری آخری سانسوں تک چلتا رہیگا۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔