بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3565 دن مکمل ہوگئے، سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کے کارکنان نے کیمپ آکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ کوئٹہ سے لاپتہ امتیاز لہڑی کے والدہ سمیت خاندان کے دیگر افراد نے آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور پریس کانفرنس کی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں پریس کلب کے سامنے وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ کی جانب سے سورٹھ لوہار کی رہنمائی میں سندھ سے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے دو روز سے احتجاج کی جارہی ہے جس کی ہم حمایت کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امتیاز احمد کو بازیاب کرکے خاندان کو کرب سے نجات دی جائے – عالیہ بلوچ
انہوں نے کہا کہ سندھی اور بلوچ قوم ایک ہی قوت کے جبر کا شکار ہیں۔ سندھ میں بھی ریاستی فورسز اور خفیہ ادارے جبری گمشدگیوں میں ملوث ہے، سندھ سے سیاسی کارکنان سمیت دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو جبری طور پر لاپتہ کرنا پاکستان کے اصلیت کو بیان کرتی ہے کہ بلوچستان سمیت سندھ میں سیاست اور قومی حقوق کے لیے آواز اٹھانے کو شجر ممنوعہ قرار دیا جاچکا ہے جوکہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جبکہ یہی صورتحال خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقہ جات میں ہے جہاں دہشتگردی کے نام پر ہزاروں لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جاچکا ہے یا انہیں ماورائے قانون قتل کیا گیا ہے۔
ماما قدیر نے مزید کہا کہ بلوچستان میں مسخ شدہ لاشوں اور فوجی آپریشنوں کے حوالے سے اقوام متحدہ اور دیگر اقوام کو متوجہ کیا گیا تو ردعمل میں ریاستی اداروں اپنے ظلم و جبر کو مزید وسعت دی آج بھی بلوچستان کے مختلف علاقوں فوجی آپریشن کی جارہی ہے اور کئی علاقے میں فوجی محاصرے میں ہے جبکہ متعدد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: فورسز نے کراچی اور حب سے ایک ہی خاندان کے 8 افراد اغوا کیئے ۔ بی ایچ آر او
ماما قدیر نے کہا ہم ایک بار پھر اپنا مطالبہ دہراتے ہیں کہ اقوام عالم بلوچستان سمیت سندھ اور خیبرپختونخواہ میں ریاست کی جانب سے انسانی حقوق کے پامالیوں کو بند کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔